ریپ کے معاملے پر آواز اٹھانے والے صحافیوں پر توہین عدلیہ کا مقدمہ

ضلع حویلی میں پولیس نے دو صحافیوں سمیت چار افراد پر عدلیہ کی توہین کا مقدمہ درج کیا ہے۔ صحافتی تنظیموں نے اس مقدمے کو زباں بندی کی کوشش قرار دیکر اس کی مذمت کی ہے۔

ایف آئی آر میں دو صحافیوں کی نامزدگی کے معاملے پر صحافتی تنظیموں نے شدید ردعمل کا اظہار کیا ہے(مظفرآباد پولیس)

پاکستان کے زیرِانتظام کشمیر کے ضلع حویلی میں مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل ہونے والے خاتون کو انصاف دلوانے کے لیے سوشل میڈیا پر مہم چلانے والے دو صحافیوں سمیت چار افراد کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے-

دونوں صحافیوں نے مبینہ ریپ اور قتل کے معاملے میں پولیس اور مقامی بااثر شخصیات کے کردار پر سوال اٹھائے تھے-

مقدمہ ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج حویلی کہوٹہ کے سپرنٹنڈنٹ کی جانب سے درج کروایا گیا ہے جس میں شخصی اور ادارہ جاتی ہتک کے علاوہ سوشل میڈیا پر ’توہین آمیز‘ مواد پوسٹ کرنے کے خلاف نافذ متنازع دفعہ بھی شامل ہے۔

تھانہ پولیس کہوٹہ میں درج مقدمے میں دو صحافیوں ماجد افسر اور اعجاز خان کے علاوہ قوم پرست جماعت جے کے ایل ایف کے کارکن ظہیر بخاری اور امریکہ میں مقیم افتخار راجہ نامی شخص کو نامزد کیا گیا ہے۔

 نامزد اشخاص پر الزام عائد کیا گیا ہے کہ ان چاروں نے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز جج حویلی کہوٹہ اور عدلیہ کے خلاف انتہائی نازیبا اور ہتک آمیز الفاظ استعمال کیے ہیں۔

ڈی ایس پی حویلی اسد نقوی نے ٹیلی فون پر انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’چاروں افراد نے گذشتہ کئی دنوں سے حویلی کہوٹہ کی پولیس اور عدلیہ کے خلاف مہم شروع کر رکھی تھی۔ پولیس کو تو اکثر و بیشتر جائز و ناجائز تنقید کا سامنا رہتا ہے اور ہم اس تنقید پر کوئی رد عمل نہیں دکھاتے مگر چونکہ اس معاملے میں معرز جج اور عدلیہ کو تنقید اور گالم گلوچ کا نشانہ بنایا گیا اس لیے عدلیہ کی تحریک پر ہی یہ مقدمہ درج ہوا۔‘

اسد نقوی کے بقول: ’ان میں سے ایک شخص نے تو پولیس افسران اور معزز جج صاحب کا نام لے کر گالیاں دیں۔ یہ سب کچھ آذادی اظہار کے زمرے میں تو نہیں آتا۔‘

مقدمے میں شامل دفعات سے متعلق سوال پر اسد نقوی نے بتایا کہ فی الحال پولیس کو جو شواہد مہیا کیے گئے ہیں ان کی بنیاد پر مقدمہ درج ہوا ہے۔

ان کے مطابق ’تفتیش کے مرحلے پر یہ طے ہو گا کہ یہ دفعات تمام نامزد ملزمان پر لاگو ہوں گی یا ان میں سے کسی ایک یا دو پر۔ ضمنی تفتیش میں دفعات میں اضافہ کیا جا سکتا ہے یا بعض دفعات ہٹائی جا سکتی ہیں۔ فی الحال تفتیش ہو رہی ہے اور اس میں ایف آئی اے سے تکنیکی معاونت حاصل کی گئی ہے۔‘

ایف آئی آر میں نامزد صحافی راجہ ماجد افسر کے مطابق انہوں نے گذشتہ ماہ حویلی میں مبینہ طور پر ریپ کے بعد قتل ہونے والی لڑکی کے ورثا کی جانب سے پولیس پر لگائے گیے الزامات کو اخبارات میں رپورٹ کیا اور اس حوالے سے فیس بک پر بھی لکھتے رہے۔

ان کے مطابق ’اسی وجہ سے پولیس کو اس کیس کا تفتیشی افسر بھی تبدیل کرنا پڑا۔ پولیس نے کئی مرتبہ سوشل میڈیا پر جاری مہم روکنے کی کوشش کی اور ناکامی کے بعد اب یہ حربہ استعمال کیا ہے۔‘

ایف آئی آر میں نامزد دوسرے صحافی اعجاز خان نے ہتک آمیز یا گالیوں پر مبنی کسی بھی پوسٹ سے لاتعلقی ظاہر کی ہے۔

اعجاز خان کئی سالوں سے صحافت کے شعبے سے وابستہ ہیں اور ایک مقامی روزنامے کے مدیر ہیں۔

انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اعجاز خان کا کہنا تھا کہ ’جب تک یہ معاملہ اخبارات میں نہیں اٹھایا گیا، پولیس کی تفتیش سست روی کا شکار رہی۔ نامزد ملزم چونکہ سیاسی جماعت سے منسلک ایک با اثر شخص ہے اس لیے پولیس اس معاملے میں سستی دکھا رہی تھی۔

رشتہ داروں کی جانب سے اسلام آباد میں احتجاج کے بعد یہ معاملہ میڈیا میں آیا اور ہم نے اس پر رپورٹنگ کی۔‘

وہ کہتے ہیں کہ کسی ہتک آمیز یا توہین آمیز پوسٹ کا کسی بھی صحافی سے کوئی تعلق نہیں۔

مقدمے میں ’آزاد پینل کوڈ‘ کی دفعہ 489 وائے بھی شامل ہے جس کے دو سال قبل ضابطہ فوجداری میں ترمیم کے ذریعے شامل کیا گیا ہے۔ کسی آن لائن پلیٹ فارم پر ہتک آمیز مواد پوسٹ کرنے کی بنیاد پر اس دفعہ کے تحت درج مقدمے میں سات سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

ریپ اور قتل کا معاملہ کیا ہے؟

سرحدی ضلع حویلی کے علاقے پلاں میں گذشتہ ماہ کے اوائل میں ایک مقامی شخص نے پولیس کو اطلاع دی کے اس کی بیٹی اپنی بہن کے گھر جانے کے بعد سے لاپتہ ہے۔

اگلے روز بیس سالہ لڑکی کی لاش ایک بارانی نالے سے ملی۔ میڈیکل رپورٹ کے مطابق اس کے جسم پر تشدد کے کئی نشانات ملے اور اس کی موت سر پر لگی گہری چوٹ کے باعث ہوئی۔

مقتولہ کے والد کی جانب سے پولیس کو ایف آئی آر کے لیے دی گئی درخواست میں الزام لگایا گیا کہ ایک مقامی شخص گذشتہ کئی ماہ سے مقتولہ کا ریپ کر رہا تھا اور وہ حاملہ تھی جس کے باعث شواہد مٹانے کے لیے اسے قتل کر دیا گیا۔

پولیس نے مقتولہ کے ریپ یا حاملہ ہونے کی تصدیق یا تردید سے گریز کیا ہے۔

ڈی ایس پی اسد نقوی کے مطابق پولیس اس معاملے کی مختلف پہلووں سے چھان بین کر رہی ہے اور شواہد کی بنا پر تفتیش کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بعض لوگ اپنی مرضی کے تفتیش چاہتے ہیں۔ وہ شاید نامزد ملزمان، پولیس افسران یا معزز عدلیہ سے کسی ذاتی رنجش کا بدلہ لینا چاہتے ہیں مگر پولیس اس میں حصہ دار نہیں بن سکتی۔‘

مبینہ ریپ اور قتل کے معاملے میں نامزد ملزم کا تعلق ایک سیاسی جماعت سے بتایا جاتا ہے۔ اسی مقدمے میں نامزد ایک اور ملزم چند ماہ قبل ہی منشیات کی فروخت کے ایک مقدمے سے بری ہوا۔

 صحافتی تنظیموں کا ردعمل

ایف آئی آر میں دو صحافیوں کی نامزدگی کے معاملے پر صحافتی تنظیموں نے شدید رد عمل کا اظہار کیا ہے۔

مقدمے پر غور اور آئندہ کی حکمت عملی طے کرنے کے لیے نیشنل پریس کلب اسلام میں راولپنڈی اسلام آباد یونین آف جرنلسٹس کی طرف سے بلائے گئے اجلاس میں نیشنل پریس کلب ، کشمیر جرنلسٹس فورم، کرائم اینڈ کورٹ ایسوسی ایشن، ربجا، ہزارہ یونین آف جرنلسٹس کے عہدیداروں نے شرکت کی۔

اجلاس میں پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ کی سربراہی میں کمیٹی قائم کی گئی ہے جو اس مقدمے کے مختلف قانونی پہلووں کا جائزہ لے کر متعلق حکام تک اپنا نقطہ نظر پہنچائے گی۔

اجلاس کے بعد جاری پریس ریلیز میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی اعلیٰ عدلیہ سے اپیل کی گئی کہ وہ صحافیوں کے خلاف حقائق کے برعکس درج ایف آئی آر کا نوٹس لے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان