سری نگر: پولیس چھاپے میں چار کشمیریوں کی ہلاکت پر تحقیقات کا حکم

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے بدھ کے چھاپے میں مارے جانے والے چار میں سے دو کشمیریوں کی لاشیں قبروں سے نکال کر لواحقین کے حوالے کر دی ہیں اور ہلاکتوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حکام نے مبینہ عسکریت پسندوں کے خلاف حالیہ پولیس چھاپے کے دوران چار کشمیریوں کی ہلاکت کے واقعے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ مظاہروں کے بعد حکام نے چھاپے میں مارے جانے والے چار میں سے دو افراد کی لاشیں بھی ان کے خاندانوں کو واپس کر دیں، جن کے لواحقین کا یہ دعویٰ ہے کہ فوجیوں نے ان کے رشتہ داروں کو انسانی ڈھال کے طور پر استعمال کیا اور پھر بےرحمی کے ساتھ قتل کیا۔

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق بھارتی پولیس کا کہنا تھا کہ پیر کو سکیورٹی فورسز نے سری نگر میں مشتبہ عسکریت پسندوں پر حملہ کیا تھا جس دوران دو شہری فائرنگ کے تبادلے میں مارے گئے۔ تاہم عینی شاہدین اور مارے جانے والوں کے خاندان والوں نے بھارتی حکام کے ان دعؤں کو جھٹلایا۔

بھارتی پولیس نے یہ بھی الزام عائد کیا کہ عسکریت پسندوں میں ایک پاکستانی شہری بھی شامل تھا، مگر اس بات کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا۔

رواں ہفتے ان شہریوں کی ہلاکت کے بعد بھارتی حکام نے تمام افراد کو دورپار ایک شمال مغربی گاؤں میں خفیہ طور پر دفن کر دیا تھا۔

بڑے پیمانے پر عوامی غم و غصے اور مظاہروں کے بعد، ڈینٹل سرجن محمد الطاف بھٹ اور رئیل اسٹیٹ ڈیلر مدثر احمد کی لاشیں جمعرات کی رات کو سرکاری افسران اور ڈاکٹروں کی ایک ٹیم کی موجودگی میں ان قبروں سے نکالی اور لوحقین کے حوالے کر دیں۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لواحقین نے بتایا کہ حکام نے ان سے کہا کہ دونوں لاشوں کو صرف قریبی رشتہ داروں اور پڑوسیوں کی موجودگی میں دفن کیا جائے، کیونکہ ان کو یہ خوف تھا کہ یہ جنازے بھارت مخالف مظاہروں میں بدل سکتے ہیں۔

سری نگر میں بدھ کو دھرنے کے دوران پولیس نے مقتول شہریوں کے ایک درجن سے زائد رشتہ داروں کو حراست میں لینے اور بعد میں رہا کرنے کے بعد لاشیں لواحقین کے حوالے کیں۔

متنازع علاقے میں نئی دہلی کے اعلیٰ منتظم، منوج سنہا نے کہا کہ ہلاکتوں کی تحقیقات ایک سینیئر سویلین افسر کی قیادت میں کی جائے گی اور ’حکومت مقررہ وقت میں رپورٹ پیش ہوتے ہی مناسب کارروائی کرے گی۔‘

کشمیر کے علیحدگی پسندوں نے ان ہلاکتوں کے خلاف احتجاج کے لیے جمعے کو علاقے میں کاروبار اور پبلک ٹرانسپورٹ بند رکھنے کی کال دی ہے۔

گذشتہ دو سالوں کے دوران حکام نے سینکڑوں مشتبہ عسکریت پسندوں اور ان کے مبینہ ساتھیوں، جن میں عام شہری بھی شامل ہیں، کی لاشیں کو دور دراز کے علاقوں میں بے نشان قبروں میں دفن کیا ہے اور ان کے اہل خانہ کو مناسب تدفین سے محروم رکھا ہے۔

اس پالیسی نے بڑے پیمانے پر بھارت مخالف جذبات میں اضافہ کیا ہے اور کچھ ہیومن رائٹس گروپوں نے اسے مذہبی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے شدید تنقید کی ہے۔

وکیل پرویز امروز، جو جموں کشمیر کولیشن آف سول سوسائٹی کے سربراہ ہیں، نے کہا: ’ماضی میں ہونے والی ان تحقیقات کے نتیجے میں کبھی بھی مظلوموں کو انصاف نہیں مل سکا۔ اس سے ریاست کو وقت ضائع کرنے اور خاندانوں کو تھکا میں مدد ملتی ہے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا