آسام کی متنازع شہریت لسٹ پر بی جے پی میں پھوٹ

گزشتہ دو مہینوں میں تین بار این آر سی مسودے کی دوبارہ جانچ پڑتال کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست بھی دی گئی تھی لیکن عدالت نے اسے خارج کر دیا۔

این آر سی جانچ پڑتال کے دوران برپتا (آسام)کا ایک شہری آنکھوں کی  بائیومیٹرک ویریفیکیشن کرواتے ہوئے۔(اے ایف پی)

بھارت کی شمال مشرقی ریاست آسام میں ہفتے کے روز جاری کی جانے والی شہریوں کی فہرست سے قریب 20 لاکھ افراد کو نکال دیا گیا ہے جن میں غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق نقادوں کا کہنا ہے کہ غیر قانونی تارکین وطن کی روک تھام کے لیے ایک طویل عرصے سے کی جانے والی اس مشق کے ذریعے اس خطے کی مسلم اقلیت کو نشانہ بنایا گیا ہے۔

بھارت کی غریب ترین ریاست آسام میں غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف غصہ برسوں سے پھیل رہا ہے جہاں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ ان کے روزگار اور اراضی پر قابض افراد پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے آئے ہیں۔

کیا اس لسٹ کے خلاف اپیل ممکن ہے؟

بھارتی عہدیداروں نے آسام میں نیشنل رجسٹر سٹیزنز (این آر سی) کے تحت تقریبا تین کروڑ 30 لاکھ افراد کی جانب سے جمع کروائی گئی دستاویزات کی جانچ پڑتال کی۔

ریاست کے رجسٹر کوآرڈینیٹر پریتک حاجیلا نے ایک بیان میں کہا کہ حتمی فہرست میں اب تین کروڑ 11 لاکھ افراد شامل ہیں جبکہ فہرست سے 19 لاکھ سے زیادہ افراد کو خارج کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا ’کوئی بھی شخص جو حتمی فہرست کے نتائج سے مطمئن نہیں ہے وہ غیر ملکیوں کے قائم کی گئی خصوصی عدالتوں میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔‘

بے دخل کیے گئے شہریوں کے پاس کتنا وقت ہے؟

فہرست سے خارج ہونے والے شہریوں کے پاس غیرملکیوں کے لیے قائم کیے گئے ٹریبونلزمیں اپنی شہریت ثابت کرنے کے لیے 120 دن کا وقت ہے۔ اگر وہاں انہیں غیر قانونی تارکین وطن قرار دیا جاتا ہے تو وہ بھارت کی اعلی عدالتوں میں اپیل کرسکتے ہیں۔ 

مقررہ مدت کے بعد بے دخل شہریوں کے ساتھ کیا سلوک ہو گا؟

آسام میں ریاستی عہدے داروں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں جانتے کہ غیر ملکی تارکین وطن قرار دیے جانے والے ان افراد کے ساتھ کیا سلوک کیا جائے گا۔ بنگلہ دیش نے بھی انہیں قبول کرنے کا عندیہ نہیں دیا ہے۔ آسام کے غیرقانونی تارکین وطن کے لیے قائم چھ حراستی مراکز میں اب تک ایک ہزار سے زیادہ افراد زیر حراست ہیں اور ریاستی حکومت نے کہا ہے کہ وہ مزید مراکز قائم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے ان حراستی مراکز کی حالت زار پر تنقید کی ہے اور وکلاء اور کارکنوں نے غیر ملکیوں کے لیے قائم کیے گئے ٹریبونلز کے کام کرنے میں پیش آنے والے مسائل کو بھی اجاگر کیا ہے۔

اس لسٹ کا پس منظر

یہ مہم ایک طاقتور ہندو قوم پرست پروگرام کا حصہ تھا جو مودی کے مئی میں دوبارہ انتخابات میں کامیابی اور ان کی مقبولیت کے تناظر میں تیار کیا گیا ہے۔ مودی کے انتخابی منشور اور ان کی انتخابات میں کامیابی کے بعد بھارت کی مسلم اقلیتی برادری میں خوف پایا جا رہا تھا۔ مودی کے قریبی ساتھی اور وزیر داخلہ امِت شاہ  اس سے قبل غیرقانونی تارکین وطن کو نکال باہر کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے انہیں ’دیمک‘ کہا تھا۔ ماہرین کے مطابق مودی حکومت ایک سخت گیر ہندو قوم پرست ایجنڈے کو آگے بڑھا رہی ہے جس نے ملک کی لبرل روایات کو چیلنج کیا ہے اور اس کا مقصد ’ہندوستانی‘ ہونے کے معنی کی وضاحت کرنا ہے یعنی ایک ہندو ہی ایک حقیقی بھارتی شہری ہو سکتا ہے۔

ناقدین نے الزام لگایا ہے کہ انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست حکمران جماعت غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف جذبات کو ہوا دے رہی ہے اور یہاں تک کہ قانونی مسلم شہریوں کو بھی نشانہ بنانے کے لیے این آر سی کا غلط استعمال کر رہی ہے۔

اپنے زیر انتظام کشمیر میں مسلم اکثریتی آبادی کو متاثر کرنے کے لیے بھارتی آئین سے آرٹیکل 370 اور 35 اے ختم کرنے کے بعد بی جے پی حکومت کا یہ نیا قدم آسام (جس کی سرحدیں بنگلہ دیش اور برما سے ملتی ہیں) کے مسلمانوں کو سب سے زیادہ متاثر کرے گا۔

شہریت کی لسٹ سے متاثرہ افراد کون ہیں؟

اکثریتی افراد جن کی شہریت ختم کر دی گئی ہے وہ ایسے لوگ ہیں جو بھارت میں ہی پیدا ہوئے، یہیں پلے بڑھے اور تمام شہری حقوق جن میں ووٹ کا حق بھی شامل ہے،  استعمال کرتے رہے ہیں۔دستاویزی شواہد کے ساتھ آسام کےتین کروڑ 30 لاکھ باشندوں (جن میں ایک کروڑ سے زیادہ مسلمان ہیں) کو یہ ثابت کرنا پڑا ہے کہ وہ یا ان کے آباؤ اجداد 1971 کے اوائل سے قبل ہندوستانی شہری تھے۔ واضح رہے کہ آسام میں باہر سے آ کر لوگوں کے بس جانے کا یہ سلسلہ برطانوی دور حکومت سے چلا آ رہا ہے۔ اس زمانے سے ہی اس ریاست میں آس پاس کے لوگ آ کر چائے کے باغات میں مزدوری کرتے تھے اور بعد میں یہیں بس جاتے تھے۔ 1947 کے بعد سے اب تک یہاں آنے والے زیادہ تر آباد کار بنگلہ دیش سے آتے تھے۔ آج سے دس برس پہلے بھارتی حکومت نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے دیکھا اور اسے ملکی وسائل ضائع ہونے کے مترادف قرار دیا۔ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی الیکشن مہم میں اس نعرے کو بھی اپنایا کہ وہ غیرقانونی طور پر بھارت میں مقیم بنگلہ دیشیوں کو ملک سے باہر نکال دیں۔

بھارتی شہریت کی لسٹ پر بی جے پی کے اندر تنقید

31 دسمبر 2017 کی رات یعنی جنوری 2018 کے پہلے دن بھارتی حکومت نے  این آر سی (بھارتی شہریت) کا پہلا ڈرافٹ آسام کے رہائشیوں سامنے رکھ دیا۔ بھارت کے وزیر داخلہ امت شاہ نے بیان دیا کہ ’بی جے پی کے لیے ملک کی سلامتی پہلی ترجیح ہے۔ آسام میں این آر سی کے اندر ابتدائی طور پر40 لاکھ غیر قانونی آباد کار نامزد ہو گئے ہیں۔ اب ان کوووٹر لسٹ سے بھی ہٹایا جائے‌گا۔ ‘

بھارتی شہریوں کی حتمی فہرست آنے سے پہلے حکمران جماعت بی جے پی کے اندر بھی اس معاملے پر پھوٹ پڑ چکی تھی۔ انڈین ایکسپریس کے مطابق 26 اگست کو بی جے پی کے علاقائی صدر رنجیت داس نے بیان دیا کہ پہلی لسٹ میں ان کے بہت سے ووٹروں کے نام موجود تھے جو اطلاعات کے مطابق موجودہ فائنل لسٹ میں موجود نہیں ہیں۔ ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ’ایسا لگتا ہے کہ ہمارا این آر سی ایسا ہو گا جس میں غیر قانونی پناہ گزینوں کے نام موجود ہوں ‌گے اور اصل ہندوستانی اس سے باہر ہوں‌ گے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بعد میں ان کے حق میں چند آوازیں مزید سامنے آئیں۔ آسام کے وزیر پارلیمنٹ چندر موہن پٹواری نے بھارتی میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا ’اصل میں جب این آر سی کا آخری مسودہ شائع ہوا تو ہمیں پتہ چلا کہ کاربی آنگلانگ اور دھیماجی (آسام کے اضلاع) کے بہت سارے اصلی شہریوں کے نام این آر سی میں نہیں تھے۔ دوسری طرف جن اضلاع میں ہمیں امید تھی کہ ایکسکلوشن (لسٹ میں رہائشی افراد کا نام نہ ہونا) سب سے زیادہ ہوگی، ان علاقوں کی فہرستوں میں ویسا نہیں تھا‘۔

یاد رہے کہ گزشتہ دو مہینوں میں تین بار این آر سی مسودے کی دوبارہ جانچ پڑتال کرنے کے لیے بھارتی سپریم کورٹ میں درخواست بھی دی گئی تھی لیکن عدالت نے اسے خارج کر دیا۔ عدالت میں ری ویری فکیشن کی درخواست سامنے آنے پر این آر سی کے  رجسٹر کوآرڈینیٹر پریتک ماحجیلا کا موقف یہ تھا 27 فیصد ری ویری فکیشن ہو چکی ہے۔ ان کے اس دعوے پر یہ اعتراض بھی بعد میں سامنے آیا تھا کہ بغیر کسی تھرڈ پارٹی کو ساتھ شامل کیے، آپ اپنی ویریفیکیشن خود ہی کیسے کر سکتے ہیں؟

بھارتی میڈیا کے مطابق راشٹریہ سیوک سنگھ (آر ایس ایس ) کی ذیلی جماعت اے بی وی پی کے اسٹیٹ جوائنٹ سکریٹری دیب آشیش رائے کا بھی یہ کہنا تھا کہ بہت سے اصل رہائشیوں کے نام این آر سی میں نہیں آئے ہیں۔

دی وائر کے مطابق پریتک ماحجیلا کے 27 فیصدی ری ویریفکیشن کے دعوے سے آسام کے پٹواری تک اتفاق نہیں رکھتے۔ ان کا کہنا ہے کہ این آر سی کے ابتدائی مسودے میں تقریبا 40 لاکھ لوگوں کا نام شامل نہیں ہوا تھا۔ ان میں سے تقریبا 36 لاکھ سے اوپر لوگوں نے اپنے دعوے اور اعتراضات درج کروائے۔ وہ یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ باقی کے چار لاکھ لوگ کہاں گئے؟ اگر وہ اس لسٹ کے بارے میں جانتے ہی نہیں تو انہیں بتایا جائے اور اگر جانتے ہیں اور چھپ رہے ہیں تو انہیں پکڑا جائے۔ بھارتی سپریم کورٹ نے پریتک ماحجیلا سے کہا تھا کہ وہ ریاستی حکومت کو ان لوگوں کی لسٹ دیں لیکن تاحال انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔

 

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا