برطانیہ میں قانون کی تعلیم حاصل کرنے والی طالبہ کو قتل کرنے والے شخص نے عمر قید کی مدت کم از کم کرنے کے لیے قانونی جنگ جیت لی۔ مذکورہ شخص نے لا گریجویٹ کو اس وقت قتل کیا جب وہ گھر واپس جا رہی تھیں۔
جورڈن میک سوینی نے گذشتہ سال 26 جون کو مشرقی لندن کے علاقے ایلفرڈ میں 35 سالہ زارا علینہ کو قتل کر دیا تھا۔
میک سوینی نے گذشتہ دسمبر میں سزا سنائے جانے کے موقعے پر عدالت میں پیش ہونے سے انکار کر دیا تھا۔
علینہ کے قتل اور جنسی حملے کا اعتراف کرنے کے بعد انہیں کم از کم 38 سال عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ گذشتہ ماہ میک سوینی نے کورٹ آف اپیل سے اپنی سزا میں کمی کی درخواست کی۔
لندن کی اپیل کورٹ کے تین ججوں نے جمعے کو میک سوینی کی اپیل منظور کر لی۔ عدالت کے علم میں آیا کہ جج نے کم از کم سزا کی مدت میں بہت زیادہ ’اضافہ‘ کیا۔ انہوں نے اس سزا کی کم از کم مدت 33 برس کر دی۔
کورٹ آف اپیل کے فیصلے کا خلاصہ پیش کرتے ہوئے خاتون چیف جسٹس لیڈی کر نے کہا: ’یہ درست نتیجہ اخذ کرنے کے بعد کہ علینہ کو حملے کے ابتدائی مرحلے میں لازمی طور پر بے ہوش کر دیا گیا اس لیے جج کے پاس اس بات کا تعین کرنے کے لیے کافی ثبوت نہیں تھے کہ انہیں اضافی ذہنی یا جسمانی تکلیف پہنچائی گئی جسے جواز بناتے ہوئے 30 سال سے شروع ہونے والی سزا میں اضافہ کر دیا گیا۔
’خوش قسمتی سے علینہ حملے کے آغاز میں ہی بے ہوش ہو گئیں۔ علینہ سے چھین کر پھینک دی جانے والی اشیا کی تعداد کا مطلب یہ بھی تھا کہ یہ نتیجہ اخذ کرنا درست نہیں تھا کہ علینہ کا موبائل فون اس لیے چھینا کیا گیا تاکہ انہیں مدد حاصل کرنے سے روکا جا سکے۔‘
اس سے پہلے اولڈ بیلی کی عدالت کو بتایا گیا میک سوینی نے کرن بروک روڈ پر علینہ کا پیچھا کیا۔ اس کے بعد انہیں پیچھے سے پکڑا ور گھسیٹتے ہوئے چھوٹی سڑک پر لے گئے۔
سی سی ٹی وی وٹیج کے مطابق یہ حملہ نو منٹ تک جاری رہا اور اس میں علینہ کو 46 زخم آئے۔
علینہ کو، جو ایک وکیل کے طور پر تربیت حاصل کر رہی تھیں، سانس لینے میں دشواری ہوئی اور بعد میں ہسپتال میں ان کی موت واقع ہو گئی۔
اکتوبر میں سماعت کے دوران ججوں کو بتایا گیا کہ علینہ حملے کے آغاز میں ہی بے ہوش ہو گئی تھیں۔ میک سوینی کے وکیل جارج کارٹر سٹیفن سن کے سی نے کہا کہ ’حملے کی نوعیت کو دیکھتے ہوئے متاثرہ (لڑکی) کی تکلیف کا وقت محدود رہا۔ کسی حد تک اس بات کا اثر اس پر بھی پڑتا ہے کہ اسے کس طرح سنگین صورت حال کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔‘
علینہ کی خالہ فرح ناز کی جانب سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’آج کا فیصلہ اس گھناونے شخص کے لیے کم از کم سزا میں تخفیف کا فیصلہ ایک متعین قانونی سزا کے فریم ورک کے ساتھ مطابقت رکھتا ہے، وہ فریم ورک جسے ہم سمجھتے ہیں۔
اس کے باوجود، اس سے خواتین کو جو پیغام ملتا ہے وہ مایوس کن ہے، جس سے پتہ چلتا ہے کہ ’عمر قید‘ کا مطلب واقعی ساری عمر جیل میں گزارنا نہیں ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ اس کے لیے ایک چھوٹی سی فتح ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ علینہ کا قتل ’معاشرے میں خواتین کی حفاظت کے طریقوں کو نئی شکل دینے کا محرک ہے‘ کیونکہ انہوں نے ’خواتین کے تحفظ کے لیے مزید ٹھوس اقدامات کی حمایت‘ کرنے کا عزم ظاہر کیا تھا۔
اس سے قبل علینہ کے اہل خانہ نے اس بارے میں بات کی تھی کہ کس طرح میک سوینی کی سزا نے ’خاندان کا غم ازسرِنو ہرا کر دیا ہے۔‘
علینہ کی خالہ فرح ناز کا کہنا تھا کہ ’یہ نہیں مانا جا سکتا کہ وہ شخص اتنے کمزور تھے کہ اپنی سزا نہیں سن سکتے تھے۔ ان میں اتنی ہمت ہے کہ انہوں نے جس سزا کو سننے کی زحمت گوارا نہیں کی اس کے خلاف اپیل کی۔‘
کارٹر سٹیفن سن نے کہا کہ ’کیا میں واضح کر سکتا ہوں کہ ابتدائی طور پر تسلیم کیا گیا کہ حملہ آور قتل خاص طور پر وحشیانہ اور سفاکانہ تھے اور اس تقریر میں، میں کوئی ایسی بات نہیں کر رہا جس کا مقصد توجہ اس بات سے ہٹانا ہو۔‘
وکیل کا کہنا تھا کہ سزا سنانے والی جسٹس چیما گرب نے اس کیس میں ’سنگین واقعات‘ کو غلط طور پر داخل کیا۔
کارٹر سٹیفن سن کا کہنا تھا کہ اس بات کو تسلیم کیا گیا کہ اس جرم کا جنسی محرک تھا لیکن ان کا کہنا تھا کہ یہ قتل سوچا سمجھا نہیں تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’یہ حملہ کسی بھی چیز کی پیشگی منصوبہ بندی کی بجائے موقع ملنے پر انجام دیا گیا فعل تھا۔ اگرچہ اس میں دماغ میں جنسی فعل تھا۔
’انہوں (میک سوینی) نے رضامندی کے ساتھ یا اس کے بغیر جنسی فعل کی منصوبہ بندی کی۔‘
بعد ازاں وکیل نے کہا کہ میک سوینی نفسیاتی مریض ہیں۔ اس بات کو سزا سناتے وقت مدنظر رکھا جانا چاہیے تھا۔
’وہ زیادہ تر لوگوں کے مقابلے میں کچھ مختلف انداز میں سوچتے ہیں۔ وہ لاابالی ہوتے ہیں۔ ان کے رویے کا اندازہ کم ہی لگایا جا سکتا ہے۔‘
تاہم کراؤن پراسیکیوشن سروس کے اولیور گلاسگو کے سی نے کہا کہ یہ کہنا کہ میک سوینی نے علینہ کو قتل کرنے کا ارادہ نہیں کیا تھا، ’ناقابل برداشت‘ ہے۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ میک سوینی نے علینہ کی طرف توجہ مبذول کرنے سے پہلے کئی خواتین کا تعاقب کرنے میں دو گھنٹے گزارے۔
بیرسٹر نے اکتوبر میں عدالت کو بتایا: ’یہ لاابالی پن کے تحت کی گئی جارحیت کا لمحہ نہیں تھا۔ یہ ایک سوچی سمجھی حرکت اور سڑکوں پر خواتین کے گھنٹوں کیے گئے تعاقب کا نتیجہ تھا۔‘
’علینہ نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جو اس تشدد کی وجہ بنا جس کی زد میں وہ آئیں۔‘
خاتون چیف جسٹس لیڈی کر نے مزید کہا: ’ہم علینہ اور ان کے اہل خانہ کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ کوئی بھی سزا چھینی گئی زندگی کی قیمت یا ایسا کرنے کی کوشش کی کبھی عکاسی نہیں کر سکتی۔‘
© The Independent