اپنی جسامت کسی اور کی خاطر تبدیل نہ کریں

اگر آپ کا ساتھی آپ کے جسم کے کسی حصے میں غیر فطری یا سائنسی طریقوں کے ذریعے تبدیلی کروانے کے خواہش مند ہیں تو یہ ان کی خواہش کا احترام کرنے کا نہیں بلکہ سوچنے کا وقت ہے۔

بہت سی خواتین اپنے ساتھی کے لیے پرکشش نظر آنے کے لیے شادی سے پہلے مشکل ترین ڈائیٹس کرتی ہیں اور بعد میں بھی کھانے کو بس چھونے کی حد تک کھاتی ہیں (اینواتو)

چین میں ایک ماڈل نے اپنے بوائے فرینڈ کی خواہش پوری کرنے کے لیے ایک ماہ میں اپنا وزن 35 کلوگرام بڑھا لیا۔ اس سے پہلے ان کا وزن محض 50 کلوگرام تھا۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے 

چین میں موٹاپا گناہ سمجھا جاتا ہے۔ یہ تو پھر ماڈلنگ کے شعبے میں تھیں جہاں جسم میں ذرا سی بھی تبدیلی پورا کیریئر تباہ کر دیتی ہے۔

ان خاتون کی کہانی کچھ ایسی ہے کہ انہیں ایک صاحب سے پیار ہو گیا تھا۔ ان صاحب کو فربہ خواتین پسند تھیں۔ جیسے جیسے ان کا رشتہ آگے بڑھا وہ ان سے وزن بڑھانے کا اصرار کرنے لگے۔

وہ خاتون ان کی محبت میں دیوانی ہو چکی تھیں۔ ان صاحب نے ان سے کہا کہ اگر وہ اپنا وزن بڑھا لیں اور موٹی ہو جائیں تو وہ ان سے شادی کر لیں گے۔

کون سی عورت ہے جو شادی نہیں چاہتی۔ یہ خاتون بھی چاہتی تھیں، پھر انہیں اپنے اس بوائے فرینڈ سے محبت بھی تھی۔

انہوں نے اپنے بوائے فرینڈ کی محبت میں اپنے جسم کو تبدیل کرنا شروع کر دیا اور ایک مہینے میں اپنا وزن 35 کلوگرام بڑھا لیا۔

وزن بڑھنے کی وجہ سے ان کا کیریئر بھی تباہ ہوا، صحت کے مسائل بھی شروع ہوئے اور وہ بوائے فرینڈ جو ان کے فربہ ہونے کے بعد ان سے شادی کرنا چاہتا تھا، بھی ان سے بریک اپ کر گیا۔

وجہ کچھ بھی نہیں تھی۔ بس وہی مردوں کا گھسا پٹا بہانہ کہ انہیں آزاد رہنا ہے۔

ساتھ ہی ساتھ اپنی طرف سے بدنیتی سے بھرا پیغام بھی بھیج دیا کہ وہ اپنے آپ کو شادی جیسے بندھن کے لیے تیار نہیں سمجھتے۔

خاتون کو چاہیے کہ وہ ان کا انتظار کرنے کی بجائے ایک اچھا سا آدمی ڈھونڈیں اور اس کے ساتھ اپنی زندگی جیئیں۔

بہت سی خواتین اپنے ساتھی کے لیے پرکشش نظر آنے کے لیے جانے کیا کیا کرتی ہیں۔ شادی سے پہلے مشکل ترین ڈائیٹس کرتی ہیں۔ شادی کے بعد بھی کھانے کو بس چھونے کی حد تک کھاتی ہیں۔

اب بوٹوکس، فلرز اور اس قسم کے ٹریٹمنٹس عام ہو چکی ہیں۔ لاہور، کراچی، اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بہت سی خواتین باقاعدہ یہ ٹریٹمنٹس کرواتی ہیں۔

جو ان سے بھی آگے جانا چاہیں وہ کسی سرجن کی مدد سے یا تو اپنے جسم سے چربی نکلواتی ہیں یا جسم کے کسی حصے میں سلیکون ڈلواتی ہیں تاکہ وہ پرکشش نظر آئیں۔

آپ گوگل کر لیں۔ پاکستان کیا، دنیا بھر میں خواتین اپنے ساتھیوں کے لیے یہ سب کرتی ہیں۔ وہ نہ صرف اس عمل پر پیسے خرچ کرتی ہیں بلکہ اس کی تکلیف بھی سہتی ہیں اور آنے والے مہینوں یا سالوں میں اس کے سائڈ ایفیکٹس بھی برداشت کرتی ہیں۔

بہت سے کیسوں میں ان کے ساتھی انہیں پھر بھی پسند نہیں کرتے۔ وہ کبھی بھی بور ہو کر انہیں چھوڑ جاتے ہیں۔ جب ایسا دوسروں کے ساتھ ہو چکا ہے تو آپ کے ساتھ کیوں نہیں ہو سکتا؟

پاکستان میں تو ایک اور عمل بھی عام ہے۔ بچے نہ چاہیئے ہوں تو شوہر اپنی بیویوں کے آپریشن کروا دیتے ہیں۔

عورتیں اس کے بعد شدید مشکلات کا شکار ہوتی ہیں۔ انہیں ہاٹ فلیشز آتے ہیں۔ بعض خواتین ڈیپریشن یا انگزائیٹی کا شکار ہو جاتی ہیں۔ بعض کی جنسی خواہش کم ہو جاتی ہے جو ان کے شوہروں کے لیے مسئلہ بن جاتی ہے۔ اور یہ سب مسائل ان کے شادی شدہ رشتے کو متاثر کرتے ہیں۔ 

ہمارے ایک دوست بچہ پیدا کرنے کے سخت خلاف ہیں۔ آئے روز بچوں کی پیدائش کے خلاف ٹویٹس کرتے ہیں۔ خیر سے شادی شدہ ہیں اور اب تک بچوں سے بچے ہوئے ہیں لیکن روزانہ بیوی کو اپنی بچہ دانی ہٹوانے کا کہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک دن اس بے چاری نے کہہ دیا کہ آپ اپنی نس بندی کیوں نہیں کروا لیتے تو وہ چیخنے چلانے لگے۔ جو کام عورت کے جسم میں تبدیلی لا کر ہو سکتا ہے اس کے لیے مرد اپنے جسم کو تبدیل کیوں کریں۔     

کہنے کا مقصد بس یہ ہے کہ آپ کچھ بھی کر لیں ، آپ کسی کی توقعات پر صد فیصد پورا نہیں اتر سکتے۔

اگر ایک انسان کو آج آپ سے مسئلہ ہے تو اسے کئی سال بعد بھی آپ سے وہی مسئلہ رہے گا۔

اگر آپ کے ساتھی کو آپ کے جسم کا کوئی خاص حصہ پرکشش نہیں لگتا اور وہ آپ سے اس حصے میں غیر فطری یا سائنسی طریقوں کے ذریعے تبدیلی کروانے کے خواہش مند ہیں تو یہ ان کی خواہش کا احترام کرنے کا نہیں بلکہ سوچنے کا وقت ہے۔

سوچیے کہ اس سے آپ کی زندگی پر کیا اثر پڑے گا۔

 آپ پہلے ہیں اور وہ بعد میں ہیں۔ اگر آپ ان کی کوئی خواہش پوری کر سکتی ہیں تو ضرور کریں۔ اپنے ساتھی کے لیے ایسا کرنے میں کوئی برائی نہیں ہے۔

تاہم، اگر اس خواہش کو پورا کرنے کے لیے آپ کو بھاری قیمت ادا کرنی پڑے تو رک جائیں۔ ان سے صاف بات کریں اور کسی متفق نکتے پر آنے کی کوشش کریں۔

ورنہ دنیا میں بہت آبادی ہے۔ وہ نہیں تو کوئی اور سہی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ