غزہ پر حملے کا ایک محاذ میڈیا بھی ہے

اسرائیل کے حق میں بیانیہ تشکیل دینے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کرنے اور سیاسی اور سفارتی دباؤ ڈالنے کے علاوہ دھمکیوں سے بھی کام لیا جا رہا ہے۔

17 نومبر، 2023 کو جنوبی اسرائیل میں اسرائیلی فوجی میڈیا ارکان کو ایک مقام کا دورہ کروا رہے ہیں (اے ایف پی/ رونالڈو شمڈتھ)

غزہ پر اسرائیلی حملے کو مغرب کے الیکٹرانک میڈیا، بالخصوص امریکی میڈیا نے جس طریقے سے کوریج دی، اس کا جھکاؤ واضح طور پر اسرائیل کی طرف ہے۔

اس واضح جھکاؤ کو کم دکھانے کے لیے اب تک بہت کوششیں کی گئیں جو فی الوقت کامیاب دکھائی نہیں دے رہیں۔

میڈیا وار کی فکری بنیادوں کو نوم چومسکی اپنی کتاب Manufacturing Consent: The Political Economy of the Mass Media میں تین دہائیاں قبل واضح کر چکے ہیں۔

کتاب کے آخر میں وہ صفحہ 402 پر اپنے مقدمے کا لب لباب پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ امریکی میڈیا ایک موثر اور طاقت ور ادارہ ہے، جو طاقت کے نظام کی معاونت میں پروپیگنڈے کی خدمت سر انجام دیتا ہے۔

انہوں نے 1988 میں لکھا کہ یہ پروپیگنڈا سسٹم حالیہ دہائیوں میں ٹی وی نیٹ ورکس کے ذریعے مزید موثر ہو گیا۔

غزہ پر اسرائیلی حملے کے بعد نوم چومسکی کے اس تجزیے کو بہت شدت سے محسوس کیا گیا۔ اسرائیلی بمباری کے حوالے سے مغربی میڈیا بہت ’محتاط‘ رہا۔

مثال کے طور پر جب 17 اکتوبر کو غزہ میں الاہلی العربی ہسپتال پر بمباری ہوئی، جس میں 500 سے زیادہ اموات ہوئیں تو نیویارک ٹائمز نے خبر لگائی کہ ’اسرائیل نے ہسپتال پر بمباری کی۔‘

اسرائیل نے جب دعویٰ کیا کہ یہ ’جہاد اسلامی‘ تنظیم کی طرف سے داغا گیا میزائل تھا جو غلطی سے ہسپتال پر گرا تو 23 اکتوبر کو نیویارک ٹائمز نے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ ہسپتال پر حملے کی خبر حماس کے دعوؤں پر مبنی ہے اور اس کی تصدیق نہیں کی جا سکتی۔

بعد میں نیویارک ٹائمز پر کم و بیش ایک درجن تجریے شائع ہوئے، جس میں اسرائیلی دعوے کی حمایت واضح نظر آئی۔

اسرائیل کے اس دعوے کی تصدیق امریکہ اور مغربی ممالک نے بھی کی۔ نیویارک ٹائمز کے علاوہ ایسوسی ایٹ پریس، سی این این، وال سٹریٹ جرنل اور بی بی سی نے بھی کی۔

پہلے اپنے فارنزک تجزوں سے حملے کو متنازع بنایا گیا اور بعد میں کھل کر اسرائیلی بیانیے کی حمایت اور تائید کی گئی۔

اگرچہ اسرائیل اپنے دعوے کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکا، لیکن میڈیا سمیت امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے اس کی ’تصدیق‘ بھی کر لی۔

جس وقت بمباری ہوئی، اس کی فوٹیج اسی وقت الجزیرہ کے رپورٹر نے بنائی۔

اس فوٹیج کے علاوہ دیگر ویڈیوز سے الجزیزہ کی ’سند ایجنسی‘ نے اس پورے واقعے کا بہت باریک بینی سے فارنزک تجزیہ کیا اور اسرائیلی دعوے کو مسترد کر دیا۔

یہ ویڈیو الجزیزہ کی ویب سائٹ پر Video investigation: What hit al-Ahli Hospital in Gaza? کے عنوان سے موجود ہے، قارئین دونوں جانب کے دعوؤں کو دیکھ سکتے ہیں۔

مغربی میڈیا کے واضح جھکاؤ کے علاوہ بین الاقوامی میڈیا میں جہاں اس کے برعکس بیانیہ پیش ہو رہا تھا اور جو مغرب کی عمل داری سے باہر تھا، انہیں خاموش کرانے کی بھی کوششیں کی گئیں۔

مثال کے طور پر اس جنگ میں بڑے میڈیا آؤٹ لٹس میں ’الجزیرہ‘ کا کردار بہت غیر معمولی اور نمایاں رہا۔

امریکی سیکریٹری خارجہ انٹنی بلنکن نے قطری حکومت سے خصوصی طور پر ’جنگ کی کوریج کے حجم کو کم کرنے اور ’اعتدال‘ سے کام لینے‘ کا کہا۔

تاہم اس جنگ میں سوشل میڈیا کا کردار بہت اہم رہا۔ سوشل میڈیا آؤٹ لیٹس میں صرف ایکس (سابق ٹوئٹر) کی پالیسی فیس بک، لنکڈ ان اور انسٹاگرام وغیرہ کی نسبت ’سخت‘ نہیں تھی۔

اس کا پہلا نتیجہ یہ نکلا کہ یورپ میں ایلون مسک کو ’ایکس پر اس جنگ کی غلط معلومات پھیلانے کی وجہ سے جواب دینے کے لیے 24 گھنٹے کا وقت دیا گیا۔‘

یورپی کمشنر برائے انٹرنل مارکیٹ تھیری بریٹن نے 10 اکتوبر کو مسک کو لکھے گئے ایک خط میں کہا کہ ان کے دفتر سے ’اشارے‘ ملے ہیں کہ ایکس پر غزہ کے حوالے سے غلط معلومات اور ’پرتشدد‘ مواد پھیلایا جا رہا ہے، مسک 24 گھنٹوں کے اندر اس کی وضاحت کریں۔

ساتھ یہ بھی کہا گیا کہ یورپی قانونی ضوابط کی تعمیل نہ کرنے کے نتیجے میں ایکس کی سالانہ آمدنی کا چھ فیصد جرمانہ بھی عائد ہو سکتا ہے۔

جب اسرائیلی بمباری کے نتیجے میں غزہ میں انٹرنیٹ اور پورا مواصلاتی نظام منقطع ہو گیا تو سوشل میڈیا پر مہم چلی جس میں مسک سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ غزہ میں سٹار لنک انٹرنیٹ شروع کریں۔

تاہم جیسے ہی ٹرینڈ نے زور پکڑا تو مسک نے اعلان کیا کہ وہ سٹار لنک کے ذریعے غزہ میں کام کرنے والی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ امدادی تنظیموں کے لیے انٹرنیٹ فراہم کریں گے۔

اس کے ردعمل میں اسرائیلی وزیر مواصلات شلومو نے کہا کہ اسرائیل سٹار لنک کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعلقات منقطع کر دے گا، مسک کو دھمکی بھی دی گئی۔

جب یہ ساری کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئیں اور اسرائیلی بیانیہ اس کے باوجود ناکامی سے دوچار ہوا، تو وہ سوشل میڈیا پر مختلف ذرائع سے اپنے بیانیہ پیش کرنے پر مجبور ہو گئے، جس کے لیے اسرائیل نے کئی ملین ڈالر مختص کیے۔

یہ منصوبہ بھی کامیاب نہ ہوا اور پوری دنیا میں لاکھوں لوگ اسرئیلی جارحیت کے خلاف نکل آئے تو پچھلے ہفتے وزیر اعظم نتن یاہو نے اعلان کیا کہ ہم بھی سات اکتوبر کی وڈیوز جاری کریں گے تاکہ عالمی رائے عامہ میں توازن آ جائے، لیکن ابھی تک یہ بھی ناکام ہی معلوم ہوتا ہے۔

میڈیا وار میں اب ایک نیا اضافہ یہ ہوا ہے کہ 12 نومبر کو سیمافور (Semafor) نے ایک رپورٹ شائع کی، جس میں بتایا گیا کہ وال سٹریٹ اور ہالی وڈ کے ارب پتی امریکی عوام کو حماس بطور ایک دہشت گرد تنظیم اور اسرائیل کے حق میں مہم چلانے کے لیے پانچ کروڑ ڈالر خرچ کرنے کے لیے منصوبے پر تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس منصوبے کے روح رواں بیری سٹرنلچٹ ہیں، جنھوں نے یہ مہم سات اکتوبر کے بعد شروع کی۔

سیمافور کے مطابق سٹرنلچٹ نے دنیا بھر کے درجنوں امیر ترین کاروباری لوگوں کو ای میل کر کے ان سے فی کس 10 لاکھ ڈالر کے عطیہ کا مطالبہ کیا۔

سٹرنلچٹ نے لکھا کہ سی این این کے مالک اور اینڈی وور (جو ایک بڑا میڈیا گروپ ہے) سے ان کی ’بہت اچھی گفتگو‘ ہوئی اور دونوں اس مہم میں ہمارا ساتھ دینے پر متفق ہیں۔

سٹرنلچٹ کے مطابق اس مہم کی بنیادی مقاصد میں سے ایک مقصد یہ ہے غزہ میں ہونے والی اموات کو کوریج دینے کے نتیجے میں اسرائیل عالمی سطح پر ہمدردی اور حمایت کھو رہا ہے اور ہمیں اپنا بیانیہ تشکیل دینا چاہیے۔

سٹرنلچٹ کا مزید کہنا ہے کہ ’اس مہم سے رائے عامہ یقیناً تبدیل ہو جائے گی، کیوں کہ فلسطینیوں کے لیے حماس جو پروپیگنڈا کر رہا ہے اس سے اسرائیل کے لیے ہمدردی ختم ہو جائے گی اس لیے اب ہمیں اپنا بیانیہ تشکیل دینے میں دیر نہیں کرنی چاہیے۔‘

یہ ای میل انہوں نے 50 سے زیادہ لوگوں کو بھیجی، جو دنیا کے صف اول کے امیر ترین لوگ ہیں، جن کی مجموعی نیٹ ورتھ 500 ارب ڈالر ہے۔

اسرائیلی بیانیے میں یہ میڈیا کے کردار کی معمولی سی جھلک ہے۔ یہ وہ خاکہ ہے جو سامنے آیا ہے۔

اس بیانیے کے لیے کروڑوں ڈالر خرچ کیے جا رہے ہیں، سیاسی اور سفارتی دباؤ سے بھی کام لیا جا رہا ہے، دھمکیوں سے بھی دریغ نہیں کیا جا رہا۔

اس دوران خلافِ واقعہ پروپیگنڈا اس کے بہت ہم عنصر کے طور پر سامنے آیا۔

لیکن اس کے باوجود یہ کوششیں بار آور دکھائی نہیں دے رہیں اور دنیا کے اکثر ملکوں میں عوام کی ہمدردیاں فلسطینی عوام کے ساتھ بڑھتی جا رہی ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ