اسرائیل اور حماس جنگ میں فوری سیزفائر کا مطالبہ کرنے والی سلامتی کونسل کی قرارداد کو ویٹو کرنے کے بعد امریکہ پر غزہ میں مبینہ جنگی جرائم میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا جا رہا ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے رہنما محمود عباس نے ہفتے کو کہا تھا کہ امریکہ ’بچوں کی خون ریزی کا ذمہ دار ہے‘ اور جنگ بندی پر اس کا موقف ’جارحانہ اور غیر اخلاقی، تمام انسانی اصولوں اور اقدار کی کھلی خلاف ورزی‘ ہے۔
حماس کے پولیٹیکل بیورو کے رکن عزت الرشیق نے امریکہ کے ویٹو کو ’غیر انسانی‘ قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی ہے۔
جمعے کی شب ہونے والی اقوام متحدہ کی رائے شماری میں سلامتی کونسل کے 15 میں سے 13 ارکان نے متحدہ عرب امارات کی جانب سے پیش کی گئی جنگ بندی کے مسودے کے حق میں ووٹ دیا۔ برطانیہ نے اس میں حصہ نہیں لیا۔
امریکہ کی جانب سے قرارداد کو ویٹو کرنے کے فیصلے پر مشرق وسطیٰ اور دنیا بھر کے دارالحکومتوں کی جانب سے شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے کہا، ’اسرائیل نے ایسے مظالم اور قتل عام کیا ہے جس سے پوری انسانیت شرما جائے۔غزہ میں انسانیت سے متعلق تمام اقدار کا قتل عام کیا جا رہا ہے۔‘
امریکی ویٹو کا حوالہ دیتے ہوئے رجب طیب اردوان نے کہا، ’ایک منصفانہ دنیا ممکن ہے لیکن امریکہ کے ساتھ نہیں کیونکہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔‘
ترکی کے وزیر خارجہ ہاکان فدان نے ترکی کی سرکاری خبر رساں ایجنسی انادولو اور نشریاتی ادارے ٹی آر ٹی کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا: ’امریکی سیاسی نظام اب اسرائیل سے متعلق معاملات پر بے بس ہے۔ لہٰذا اسرائیل اس معاملے پر لاپرواہی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ظلم و ستم جاری رکھے ہوئے ہے۔‘
اقوام متحدہ میں ووٹنگ سے قبل فدان اور عرب ممالک کے وزرائے خارجہ کے ایک وفد نے واشنگٹن ڈی سی کا دورہ کیا تھا تاکہ امریکی حکومت پر زور دیا جا سکے کہ وہ غزہ میں فوری جنگ بندی پر اپنے اعتراضات واپس لے۔
اردن کے وزیر خارجہ ایمن صفادی نے جمعہ کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے ملاقات سے قبل کہا کہ اسرائیل کی بمباری اور غزہ کا محاصرہ جنگی جرم ہے اور یہ خطے کو عدم استحکام سے دوچار کر رہا ہے۔
امریکہ کے ویٹو کو انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں کی جانب سے بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ اس نے ’شہریوں کی تکالیف کو نظر انداز کیا‘ ہے جبکہ ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز جسے میڈیسنز سان فرنٹیئرز کے نام سے بھی جانا جاتا ہے، کا کہنا ہے کہ ’یہ انسانیت کے خلاف ووٹ ہے۔‘
اقوام متحدہ میں امریکہ کے نائب سفیر رابرٹ ووڈ نے اپنے موقف کا جواز پیش کرتے ہوئے سلامتی کونسل کو بتایا کہ سیزفائر ’اگلی جنگ کے بیج بوئے گا۔‘
امریکہ نے کہا ہے کہ اس کے بجائے وہ ’انسانی بنیادوں پر تعطل‘ کی حمایت کرتا ہے جیسا کہ گذشتہ ہفتے سات روزہ جنگ بندی میں 100 سے زائد قیدیوں کو اسرائیل واپس بھیجا گیا تھا اور 240 فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا گیا تھا، جن میں سے زیادہ تر کو بغیر کسی الزام کے حراست میں رکھا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قرارداد پر ووٹنگ کے دوران اسرائیلی جنگی طیاروں نے غزہ پر فضائی حملوں کا سلسلہ جاری رکھا جس نے رات بھر اور ہفتے تک تباہی مچائی۔
ہفتے کو اسرائیل کی زمینی کارروائیاں جاری تھیں اور جنوبی شہرخان یونس میں جھڑپوں کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
اسرائیل نے ہفتے کو رہائشیوں کہا تھا کہ خان یونس کے مرکز سے باہر نکل جائیں۔
وزارت صحت کے مطابق حماس کے زیر انتظام غزہ میں اموات کی تعداد 17 ہزار سے تجاوز کر گئی ہے۔
ووٹنگ کے دوران اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے غزہ تنازع میں ’بین الاقوامی امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے سنگین خطرے‘ کی بات کرتے ہوئے ’مقبوضہ مغربی کنارے، لبنان، شام، عراق اور یمن‘ میں کشیدگی کے پھیلاؤ کی طرف اشارہ کیا۔
جنگ شروع ہونے کے بعد سے اسرائیل کو متعدد محاذوں پر لڑنا پڑا ہے، لبنان کے ساتھ اپنی شمالی سرحد پر ایران کی حمایت یافتہ حزب اللہ کے اور یمن میں ایران کے حمایت یافتہ حوثی باغیوں کی طرف سے اس کے جنوبی علاقے کی طرف داغے گئے میزائلوں کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اسرائیل نے شام میں کئی فضائی حملے بھی کیے ہیں۔
عراق میں ایران کے حمایت یافتہ دیگر باغیوں نے اسرائیل کی حمایت کے بدلے میں امریکی مفادات پر حملے کیے ہیں۔ امریکی اور عراقی حکام کا کہنا ہے کہ جمعہ کو امریکی سفارت خانے کو ایک راکٹ سے نشانہ بنایا گیا جس سے معمولی نقصان ہوا تاہم کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔
اقوام متحدہ میں ووٹنگ کے فوری بعد ایران نے خبردار کیا تھا کہ ’خطے کی صورت حال میں بے قابو‘ ہو سکتی ہے۔
جنگ بندی کی مخالفت کے باوجود امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ عام شہری اموات کو محدود کرنے کے لیے مزید اقدامات کرے، بلنکن کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جانب سے شہریوں کے تحفظ کے اعلان کردہ ارادوں اور زمین پر اموات کی بڑھتی ہوئی تعداد کے درمیان ایک ’خلا‘ باقی ہے۔ انہوں نے کہا، ’جنوب میں اس مہم کے تقریبا ایک ہفتہ بعد ہمیں اس صورت حال کا سامنا ہے... یہ ضروری ہے کہ اسرائیل سویلین تحفظ پر زیادہ توجہ دے۔‘
جنگ بندی کے مطالبے کے جواب میں اسرائیلی وزیر دفاع یواو گیلنٹ نے کہا کہ یہ حماس کی فتح کے مترادف ہوگا۔
انہوں نے کہا، ’جنگ بندی حماس مطلب حماس کو انعام سے نوازنا ہے، غزہ میں قیدی بنائے گئے قیدیوں کو کو چھورنے اور ہر جگہ دہشت گرد گروہوں کو اشارہ دینے کے مترادف ہے۔ ہم اپنے مشن میں اسرائیل کے ساتھ کھڑے ہیں - ہم اپنے مستقبل کے لے لڑ رہے ہیں، اور ہم آزاد دنیا کے لیے لڑ رہے ہیں۔‘
© The Independent