انگلستان کے غریبوں کی دنیا

انگلستان ویسے تو صدیوں سے دنیا کے امیر ترین ملکوں میں سے ایک ہے لیکن ایسا نہیں ہے کہ وہاں غریب پائے ہی نہیں جاتے۔

لندن کی ایک سڑک پر موجود بھکاری (Philafrenzy - CC BY-SA 4.0)

انگلستان ایک عرصے تک یورپ کا طاقتور ملک رہا اور اس نے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں پر قبضہ کر کے ان کی دولت لوٹ کھسوٹ کر اپنے ملک میں جمع کی۔ اسی دولت کی مدد سے اسے صنعتی انقلاب کے بعد سرمایہ داری کی بنیاد رکھنے میں مدد ملی، لیکن وہ اپنے معاشرے سے غربت کا خاتمہ نہ کر سکا۔

انگلستان کی تاریخ میں طبقاتی تقسیم نے امیروں اور غریبوں کے درمیان بے حد دوری پیدا کر دی تھی۔ ملک کی ساری دولت حکمران طبقے میں جمع ہو گئی تھی۔ غریب لوگوں کی عزت تھی، نہ وقار اور نہ ہی ان کے پاس کھانے پینے اور رہائش کی سہولتیں تھی۔ اس ایک ہزار برس غربت کی تاریخ کو Peter Stubbly نے اپنی کتاب A Pauper’s History of England یعنی انگلستان میں غربت کی تاریخ میں بیان کیا ہے۔

1066 میں نورمنز نے انگلستان کو فتح کیا تھا۔ اس وقت یہاں غلامی کا رواج تھا۔ یہ غلام یا تو جنگی قیدی ہوتے تھے یا وہ افراد جو اپنا قرض ادا نہیں کر پاتے تھے، یا وہ جو غربت سے تنگ آ کر بطور غلام خود کو بیچ دیتے تھے۔

یہ غلام فیوڈل لارڈز کے کھیتوں میں کام کرتے تھے، ان کے مویشیوں کی دیکھ بھال کرتے۔ یہ زمین کو چھوڑ کر کہیں اور نہیں جا سکتے تھے۔ لہٰذا معاشرہ تین طبقوں میں تقسیم تھا۔ حکمراں لوگوں سے کہتے تھے کہ ہم تم پر حکومت کرتے ہیں۔ مذہبی گروہ کا کہنا تھا کہ ہم تمہارے لیے عبادت کرتے ہیں اور عوام کہتے تھے کہ ہم تمہارے لیے محنت و مشقت کرتے ہیں۔

1100 میں لندن میں ایک شخص نے غریبوں کے بھرے جلسے سے خطاب کیا۔ لوگوں نے اسے غریبوں کے بادشاہ کا خطاب دیا۔ اس نے جلسے میں حکمرانوں اور امرا پر سخت تنقید کی اور زور دیا کہ غربت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ لوگوں نے اس کی بات کو غور سے سنا مگر حکمرانوں کے لیے اس میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔ اس سے یہ اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ غریبوں میں اپنی غربت کا احساس تھا اور اس کا ذمہ دار وہ اشرافیہ کو ٹھہراتے تھے۔

غربت کے خاتمے کے بجائے دوسرا رجحان یہ تھا کہ غربت کو مذہب کی رو سے جائز قرار دے کر اس کی خوبیاں بیان کی جائیں۔ اس مقصد کے لیے فرانسس آف اسیسی (وفات 1226) نے اسیسی فرقہ قائم کیا، جس کا مقصد یہ تھا کہ ایک فرقے کے راہب غربت کی زندگی گزاریں گے اور غریبوں کی خدمت کریں گے تا کہ عام لوگ ان سے متاثر ہو کر اپنی غربت کو تسلیم کر لیں کیونکہ خدا کی نظر میں یہ ایک نیک عمل ہے۔

غربت کے فضائل بیان کرنے کے باوجود غریب اپنی خستہ حالی اور بھوک سے نڈھال رہا کرتے تھے۔ کسانوں کو بھاری ٹیکس ادا کرنا ہوتا تھا، اس لیے ان کے پاس ایک ہی حل تھا کہ بغاوت کر کے اپنے مطالبات منوائیں، لہٰذا 1381 میں ویٹ ٹائلر (وفات 1381) کی راہنمائی میں کسانوں نے بغاوت کی، لندن میں آ کر امرا کی حویلیوں کی توڑ پھوڑ کی اور جب بادشاہ کے محل پہنچے تو بادشاہ نے ان کے مطالبات کو مان لیا، لیکن دوسرے دن جب ٹائلر میدان میں جمع بادشاہ اور اس کے لشکر کے سامنے اکیلا ملنے آیا تو ایک امیر نے آگے بڑھ کر اس کے پیٹ میں تلوار گھونپ دی۔

اس کے کسان ساتھی دور کھڑے یہ دیکھ رہے تھے۔ اس واقعے کو دیکھ کر ان میں بھگڈر مچ گئی جس پر شاہی لشکر نے کسانوں کا قتلِ عام شروع کر دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

غربت کے خاتمے کے بجائے حکومت کی پالیسی یہ تھی کہ غریبوں کو تھوڑی بہت مدد دے کر انہیں خاموش رکھا جائے۔ غریب لوگوں کا مسئلہ یہ تھا کہ بیروزگاری تھی، لہٰذا ان کے سامنے ایک ہی حل تھا کہ بھیک مانگ کر گزارہ کریں۔ جب بھکاریوں کی تعداد بڑھی تو حکومت نے قانوں کے ذریعے بھیک مانگنے کو جرم قرار دے دیا۔

بھکاریوں نے بھیک مانگنے کے نئے نئے طریقے نکالے۔ وہ اپنے آپ کو بیمار بناتے تھے۔ جسم پر مٹی ملتے تھے اور اپنی چال ڈھال سے بیماری کا اظہار کرتے تھے۔ کچھ افراد ایسے تھے جو خود کو زخمی دکھا کر یا اپنے اعضا کو توڑ مروڑ کر لوگوں کے جذبات کو ابھارتے تھے۔

ان میں سے اکثریت ان کی تھی جو بے گھر تھے، جو رات کو باغ کے بینچوں، پلوں کے نیچے یا کسی چھجے والی دکان کے چبوترے پر سوتے تھے۔

غربت سے تنگ آ کر رات کو عورتیں سڑکوں پر آ جاتی تھیں اور جسم فروشی کر کے تھوڑا بہت کماتی تھیں۔ بعض شادی شدہ عورتیں بھی گھر کی آمدنی کو پورا کرنے کے لیے جسم فروشی پر مجبور تھیں۔

غربت کی ان خرابیوں کو روکنے کے لیے حکومت نے ان کی اصلاح کے لیے ایک ادارہ قائم کیا، جہاں مرد اور عورتوں کو رکھا جاتا تھا، لیکن توجہ اس پر نہیں تھی کہ ان افراد کو کام دیا جائے تاکہ یہ بھیک مانگنے اور جرائم سے دور رہیں۔ الٹا ادارے کے منتظمین مردوں اور عورتوں کو سخت سزائیں دیتے تھے، کیونکہ ان سے یہاں پر جو کام کروایا جاتا تھا، وہ اتنا سخت تھا کہ وہ اسے پورا نہیں کر پاتے تھے۔ بطور سزا ان کی ننگی پیٹھ پر کوڑے مارے جاتے تھے، لہٰذا یہ ادارہ اپنے مقصد میں ناکام رہا۔

ایک اور طریقہ جو اختیار کیا گیا وہ ورک ہاؤس کا قیام تھا۔ یہاں پر غریب خاندانوں کو رکھا جاتا تھا اور ان سے مختلف کام کروائے جاتے تھے۔ ان کا کھانا قلیل مقدار میں ہوتا تھا، اس لیے یہ بھوکے رہتے تھے۔ ایک کام جو ان کو دیا جاتا تھا وہ یہ تھا کہ جانوروں کی ہڈیوں کو توڑ کر اور پیس کر تیار کریں تاکہ اسے بطور کھاد استعمال کیا جائے۔

اپنی بھوک کو پورا کرنے کے لیے غریب لوگ ان ہڈیوں سے گودا نکال کر کھا لیتے تھے، لہٰذا ورک ہاؤس کی یہ سکیم غربت کے خاتمے کا باعث نہ بن سکی۔

امریکہ کی آزادی کے بعد بڑی تعداد میں افریقی بھی انگلستان میں آ کر آباد ہو گئے۔ یہ سب ہی غربت کی حالت میں رہتے تھے۔ 47-1846 میں جب آئرلینڈ میں آلوؤں کی فصل خراب ہوئی تو آئرلینڈ کے باشندے ہزاروں کی تعداد میں امریکہ گئے یا انگستان میں چلے آئے۔

یہ لوگ انتہائی غربت کی حالت میں تھے۔ انگلستان کی حکومت جو اس وقت انتہائی طاقتور تھی اور جس کے سرمایہ دار بے انتہا دولت مند تھے، وہ اپنے ہی غریب عوام کے دکھ درد کو دور نہیں کر سکی اور یہ غریب لوگ محرومیوں اور تکلیفوں کے ساتھ بے بسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوئے۔

یہ عوامی تاریخ کا وہ حصہ ہے، جسے چھپا دیا جاتا ہے تاکہ حکمران طبقوں کی شان و شوکت پر کوئی داغ نہ آئے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ