پاکستان تحریک انصاف کے بانی اور سابق وزیر اعظم عمران خان کے کاغذات نامزدگی دونوں حلقوں سے مسترد اور اپیلیں خارج ہونے کے بعد اب ان کے پاس قانونی آپشنز کیا ہیں؟
انڈپینڈنٹ اردو نے قانونی ماہرین سے بات کر کے ان کی رائے جاننے کی کوشش کی ہے۔
سینیئر قانون دان شاہ خاور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’اگر کسی بھی امیدوار کے کاغذات نامزدگی ریٹرننگ افسر مسترد کر دے تو الیکشن ٹریبیونل جو ہائی کورٹ کے جج پر مشتمل ہوتا ہے اس کے پاس ریٹرننگ افسر کے فیصلے کے خلاف اپیل کی جا سکتی ہے۔‘
شاہ خاور کہتے ہیں کہ اب ہائی کورٹ اس کو انٹرا کورٹ اپیل کے طور پر نہیں سنے گی چونکہ بنیادی حقوق کا معاملہ ہے اور الیکشن لا میں تو مزید اپیلوں کی گنجائش نہیں ہے اس لیے آرٹیکل 199 کے تحت درخواست دائر ہو گی۔ ہائی کورٹ کے بعد سپریم کورٹ کا آپشن موجود ہے۔‘
سپریم کورٹ کے وکیل احسن بھون نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ الیکشن ٹربیونل کے بعد عمران خان یا کسی بھی امیدوار جس کی اپیل خارج ہو گئی ہو وہ رٹ پٹیشن کر سکتا ہے یعنی وہ ہائی کورٹ میں آئینی درخواست دائر کرے گا اور وہاں بھی سنوائی نہ ہونے پر سپریم کورٹ آئینی درخواست کی جا سکتی ہے۔‘
الیکشن کمیشن ٹربیونلز کے فیصلوں کے بعد 12 جنوری کو امیدواروں کی حتمی فہرستیں جاری کرے گا تو کیا مسترد ہونے والے امیدواروں کے پاس وقت کم ہے؟
اس سوال کے جواب میں وکیل احسن بھون نے بتایا کہ ’گذشتہ انتخابات میں پی ٹی آئی کے ایک امیدوار کو سپریم کورٹ نے عام انتخابات سے تین دن پہلے الیکشن لڑنے کی اجازت دی تھی اسی طرح ن لیگ کے بھی کئی امیدواروں کو الیکشن کمیشن کی حتمی فہرست کی تاریخ کے بعد سپریم کورٹ سے ریلیف ملا تھا۔ اس لیے تاریخ سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اگر آخری فورم سے ایک دن پہلے بھی اجازت ملے تو انتخابات میں حصہ لیا جا سکتا ہے۔‘
لیکن اگر کاغذات سزا یافتہ ہونے پر مسترد ہوئے ہوں تو کیا سزا معطلی کی بنا پر منظور ہو سکتے ہیں؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’معطلی ایک وقتی ریلیف ہے جس سے ضمانت مل سکتی ہے لیکن قانون کے مطابق اس سے سزا ختم نہیں ہوتی جب تک کہ وہ سزا کالعدم نہ ہو جائے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
الیکشن کمیشن نے دس جنوری تک تمام اپیلوں کا فیصلہ کرنا ہے۔ اس کے بعد فہرست جاری کی جائے گی۔ الیکشن کمیشن کے مطابق کاغذات نامزدگی منظور یا مسترد ہونے کے خلاف اپیلوں کی سماعت تین جنوری تک ہوئی جبکہ ایپلٹ ٹربیونلز نے دس جنوری تک اپیلوں کے فیصلے کیے۔
ایپلٹ ٹربیونل سے عمران خان کے دونوں حلقوں سے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا فیصلہ برقرار:
لاہور ایپلٹ ٹربیونل نے بانی تحریک انصاف عمران خان کے حلقہ این اے 122 جبکہ لاہور ہائی کورٹ پنڈی بینچ کے ایپلٹ ٹربیونل نے میانوالی کے حلقہ 89 سے ان کے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیلیں خارج کرتے ہوئے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کا فیصلہ برقرار رکھا۔
پس منظر
بانی پی ٹی آئی عمران خان نے لاہور کے حلقہ این اے 122 اور میانوالی کے حلقہ 89 سے کاغذات نامزدگی جمع کروائے تھے۔ ریٹرننگ افسران نے عمران خان کے کاغذات نامزدگی پر اٹھنے والے اعتراضات کا فیصلہ سناتے ہوئے نامزدگی فارمز مسترد کر دیے تھے۔
دونوں حلقوں میں اعتراضات کنندگان نے اعتراض کیا تھا کہ عمران خان سزا یافتہ اور نااہل ہیں، لہذا وہ انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتے۔
بعد میں معاملہ الیکشن ٹربیونل کے پاس چلا گیا۔
این اے 122 میں لاہور ہائی کورٹ کی اپیلٹ ٹربیونل نے عمران خان کے لاہور کے حلقہ 122 سے کاغذات نامزدگی مسترد ہونے کے خلاف اپیل خارج کر دی۔
ٹربیونل کے سامنے ریٹرنگ افسر نے بتایا تھا کہ ’دو وجوہات ہیں جس کی بنیاد پر سابق چیئرمین پی ٹی آئی کے کاغذات مسترد کیے گئے۔ پہلی وجہ یہ کہ بانی پی ٹی آئی کے تجویز کنندہ کا تعلق این اے 122 سے نہیں ہے، دوسری وجہ یہ ہے کہ عمران خان سزا یافتہ ہیں۔‘