ذیشان ( فرضی نام) پاکستانی نژاد برطانوی شہری ہیں۔ وہ پاکستان میں بھی کاروبار کرتے ہیں۔ جب سے آئی ایم ایف معاہدہ ہوا ہے ان کے کاروبار میں کچھ پختگی آئی ہے۔ وہ پاکستان کے امیج اور معاشی حالات کو لے کر بہت حساس ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں حالات خراب ہونے سے معاشی نقصان تو ہوتا ہے لیکن بیرون ملک پاکستان کا جو امیج خراب ہوتا ہے وہ ناقابل تلافی نقصان ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ اقتدار کے حصول کے لیے سیاسی جماعتیں ملک کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کرتیں اور پاکستان کے ترقی پذیر رہنے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
انھوں نے خبر پڑھی کہ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی خان کی سربراہی میں وفد نے آئی ایم ایف کے نمائندوں سے ملاقات کر کے شفاف انتخابات سے متعلق اپنے تحفظات سے آگاہ کیا ہے۔
آئی ایم ایف پروگرام کے لیے تعاون کی یقین دہانی واضح طور پر صاف اور شفاف انتخابات سے مشروط تھی جو کہ اب دکھائی نہیں دیتے لہذا وہ آئی ایم ایف پروگرام کے لیے اپنی حمایت واپس لے رہے ہیں۔
ذیشان ( فرضی نام) سوچنے لگے کہ 11 جنوری کو آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہے۔ جس میں پاکستان کو قرض کی منظوری ملنی ہے۔ کیا اس موقع پر پی ٹی آئی کی جانب سے اس طرح کا ردعمل آنا چاہیے تھا اور کیا پی ٹی آئی کی وجہ سے آئی ایم ایف پروگرام میں رکاوٹ پڑ سکتی ہے؟
کیا درآمدات پر پھر سے پابندی لگ سکتی ہے اور کیا ڈالر ریٹ دوبارہ بڑھ سکتا ہے۔ ان کے ذہن میں بہت سے خدشات ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ اگر ملک میں اس طرح کی بے یقینی جیسی کیفیت ختم نہیں ہوئی تو وہ کاروبار بند کر کے مستقل طور پر برطانیہ منتقل ہو جائیں گے۔
اس حوالے سے کرنسی ایکسچینج ایسوسی ایشن آف پاکستان کے جنرل سیکریٹری ظفر پراچہ نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف والے تو ایکسچینج کمپنیوں اور ہماری ایسوسی ایشن سے بھی ملتے رہتے ہیں۔
’ممکن ہے کہ وہ اسی طرح بینکوں کے مالکان سے بھی ملتے ہوں اور سٹاک ایکسچینج والوں سے بھی ملتے ہوں۔ یہ ایک معمول کا عمل ہے۔ اس سے اصل پروگرام کو زیادہ فرق نہیں پڑتا، بشرطیکہ حکومت نے آئی ایم ایف کے معاشی اہداف حاصل کر لیے ہوں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ماضی میں ہم دیکھ چکے ہیں کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد سابق وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین، اس وقت کے پنجاب کے وزیر خزانہ محسن لغاری اور خیبر پختونخوا کے وزیرِ خزانہ تیمور جھگڑا کی مبینہ آڈیو بھی سامنے آ چکی ہے جس کے مطابق مبینہ طور پر آئی ایم ایف کے معاہدے سے پیچھے ہٹنے کا منصوبہ بنایا گیا تھا۔ لیکن کیا ہوا؟ پروگرام کو تو فرق نہیں پڑا اور الٹا نقصان تحریک انصاف کو ہوا۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’کسی سیاسی جماعت کو آئی ایم ایف سے مل کر ملک کے خلاف بات نہیں کرنی چاہیے۔ یہ معاشی دہشت گردی کے مترادف ہے۔ ٹیم چاہے کتنی ہی کمزور کیوں نہ ہو، اچھا کپتان وہی ہوتا ہے جو اپنی ٹیم کی کمزوریاں چھپائے اور سب کو جیت کا یقین دلائے۔
’انھیں سوچنا ہو گا کہ اگر کسی سیاسی جماعت کے منفی بیان سے آئی ایم ایف پروگرام تاخیر کا شکار ہوتا ہے یا ملتوی ہوتا ہے تو اس سے ملک کا نقصان ہو گا۔‘
ان کے مطابق ’امریکہ نے پاکستان میں الیکشنز کے حوالے سے جو بیان دیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ امریکہ چاہتا ہے کہ جیسے بھی الیکشنز ہوں کروا کر ختم کریں۔ گو کہ عوامی اور کاروباری سطح پر الیکشن میں دلچسپی نہیں نظر آ رہی۔ لیکن آج کی تاریخ تک تو الیکشنز ہونے کی مثبت خبریں ہیں اور تیاریاں بھی ہو رہی ہیں۔‘
سابق وزیر خزانہ ڈاکٹر حفیظ پاشا نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کا یہ پروگرام عارضی ہے، اصل پروگرام نئی حکومت کے ساتھ ہو گا۔ پی ٹی آئی کو اس طرح کے پیغامات دینے سے گریز کرنا چاہیے۔ کیونکہ اگر آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہو گا تو ملک نہیں چل سکے گا۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف برسراقتدار وفاقی حکومت کے ساتھ معاہدہ کرتی ہے۔ جب دیگر ممالک میں بھی آئی ایم ایف قرض دیتی ہے تو سٹیک ہولڈرز سے ملتی ہے لیکن انھیں اصل یقین دہانی حکومت وقت سے درکار ہوتی ہے۔ میرے مطابق 11 جنوری کو جو آئی ایم ایف بورڈ کا اجلاس ہے اس پر پی ٹی آئی کے بیانات کا فرق نہیں پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انھوں نے کہا کہ ’آئی ایم ایف سٹیک ہولڈرز کے موقف سنتی ہے لیکن ان کے خدشات کو ایک دوسرے تک پہنچانا یا ان میں اتفاق پیدا کرنے کی کوشش نہیں کرتی۔ دراصل وہ یہ جاننا چاہتے ہیں کہ لانگ ٹرم میں ملک کو کس طرح چلایا جا سکتا ہے۔‘
سابق حکومتی مشیر ڈاکٹر فرخ سلیم نے انڈیپنڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’آئی ایم ایف کی دلچسپی اس میں ہوتی ہے کہ کونسی پارٹی یا حکومت پروگرام میں عمل درآمد کرے گی۔ اگر ملک میں الیکشن ہونے والے ہوں اور پروگرام negotiate ہو رہا ہو تب ممکن ہے کہ آئی ایم ایف تمام پارٹیوں سے ملاقات کرے لیکن یہ پروگرام تو پچھلے سال فائنل ہو چکا ہے۔ میرے مطابق اب پارٹیوں سے ملاقاتوں کی ضرورت نہیں ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف کو پاکستان کی جانب سے تمام رپورٹس 15 دن پہلے بھجوا دی گئی تھیں۔ بورڈ اجلاس نے فیصلہ ان رپورٹس پر کرنا ہے نہ کہ کسی سیاسی پارٹی کے پیغامات پر۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’مجھے ایسی کوئی وجہ محسوس نہیں ہوتی کہ جس کے لیے آئی ایم ایف عمران خان سے جیل میں ملنے کی خواہش ظاہر کرے۔ یہ پی ٹی آئی کی خواہش ہوسکتی ہے لیکن آئی ایم ایف کی ضرورت نہیں۔‘
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔