بلدیو کمارکی بھارت سے پناہ کی درخواست: اصل معاملہ کیا ہے؟

وادی سوات کے علاقے بری کوٹ سے تعلق رکھنے والے خیبرپختونخوا سمبلی کے سابق رکن بلدیو کمار نے اتوار کے روز بھارتی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں ان کی زندگی اور خاندان کو خطرہ ہے، اس لیے وہ وہاں واپس نہیں جانا چاہتے۔

بلدیو کمار اگست میں وزٹ ویزے پر بھارت گئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ اور دو بچے رواں برس جنوری سے ہی ان کی بیٹی کے علاج کی غرض سے وہاں مقیم ہیں (سکرین گریب : اے این آئی)

پاکستان کی خیبر پختونخوا اسمبلی کے تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے سابق اقلیتی رکن بلدیو کمار بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

وادی سوات کے علاقے بری کوٹ سے تعلق رکھنے والے بلدیو کمار نے اتوار کے روز بھارتی میڈیا کو بتایا کہ پاکستان میں ان کی زندگی اور خاندان کو خطرہ ہے، اس لیے وہ وہاں واپس نہیں جانا چاہتے۔

انہوں نے پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے خلاف مبینہ ظلم و ستم کے الزامات بھی لگائے۔

بلدیو کمار اگست میں وزٹ ویزے پر بھارت گئے تھے جبکہ ان کی اہلیہ اور دو بچے رواں برس جنوری سے ہی ان کی بیٹی کے علاج کی غرض سے وہاں مقیم ہیں۔

بلدیو کی اہلیہ بھاونا بھارتی شہری ہیں جبکہ ان کی 11 سالہ بیٹی تھیلسیمیا کی مریض اور بھارت میں زیر علاج ہے۔

بھارتی میڈیا کے مطابق بلدیو کمار اپنے خاندان کے ہمراہ صوبہ پنجاب کے شہر کھنہ (ضلع لدھیانہ) میں کرائے کے مکان میں مقیم ہیں۔

بلدیو کمار پر وزیراعلیٰ خیبر پختون خوا کے سابق مشیر ڈاکٹر سورن سنگھ کے قتل کا بھی الزام تھا، تاہم شواہد کی عدم دستیابی کے باعث عدالت نے انہیں رہا کر دیا تھا۔

سورن سنگھ ہی کے قتل کے بعد بلدیو کمار کو خیبر پختونخوا اسمبلی کا رکن بننے کا موقع ملا تھا۔

بلدیو کمار کے رشتہ دار کیا کہتے ہیں؟

بلدیو کمار کے دو بھائیوں اور ایک بہن کے علاوہ کئی رشتہ دار سوات کے علاقے بری کوٹ اور خیبر پختونخوا کے دیگر علاقوں میں رہتے ہیں۔

بلدیو کے بھارتی میڈیا پر نمودار ہونے کے فوراً بعد اتوار کی دوپہر ان کے رشتہ دار مینگورہ میں واقع سوات پریس کلب پہنچے اور میڈیا سے گفتگو کی۔

بلدیو کمار کے بھائی اور تحصیل کونسلر تلک کمار سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’میرے خیال میں انہوں نے کسی دباؤ کے تحت یہ بیانات دیے ہیں۔‘

اپنی بات کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ ’بلدیو محب وطن پاکستانی تھے اور ہم اُن سے ایسی امید نہیں رکھتے تھے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تلک کمار نے کہا کہ بھارت جاتے ہوئے بلدیو نے اپنے سینے پر پاکستانی چھنڈا سجایا ہوا تھا بلکہ ان کے کچھ دوستوں نے ایک ایسی تصویر کا ذکر بھی کیا جس میں بلدیو گولڈن ٹمپل میں کھڑے ہیں اور ان کے سینے پر پاکستانی پرچم لگا ہوا نظر آرہا ہے۔

انہوں نے مزید کہا: ’مجھے یقین ہے کہ بلدیو کو اس بات کا پوری طرح اندازہ ہے کہ ان کے ایسے بیانات یہاں موجود عزیز رشتہ داروں کے لیے مسائل کھڑے کر سکتے ہیں۔ اس لیے میرا نہیں خیال کہ وہ (بلدیو) اپنی مرضی یہ سب کچھ کر اور کہہ رہے ہیں۔

تلک کمار نے کہا کہ انہیں بلدیو کے ارادوں کا کوئی علم نہیں تھا۔ وہ اپنی بچی کے علاج کے لیے انڈیا گئے تھے۔

بلدیو کے بھانجے ہومی کمار سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو  سے گفتگو میں بتایا: ’میرے ماموں نے 12 اگست کو اپنے فیس بک پیج پر تصویر لگائی اور لکھا کہ وہ انڈیا میں ہیں۔ ہمیں فیس بک سے علم ہوا کہ وہ وہاں ہیں۔‘

ہومی کمار جو سوات یو نیورسٹی کے طالب علم ہیں نے کہا کہ ان کا خاندان کئی نسلوں سے بری کوٹ (سوات) میں رہائش پذیر ہے اور پاکستان ان کا ملک ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’سکھوں کو پاکستان میں کوئی خطرہ نہیں ہے۔ ایک آدھ ذاتی واقعے کی بنیاد پر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مذہبی اقلیتوں کے ساتھ یہاں کوئی ظلم ہو رہا ہے۔‘

بلدیو کمارکے بڑے بھائی بٹ خیلہ کے سرکاری اسپتال میں لیبارٹری ٹیکنیشن ہیں جبکہ تلک کمار بری کوٹ میں کپڑے کا کاروبار کرتے ہیں۔

بلدیو کے خالہ زاد بھائی اور عوامی نیشنل پارٹی سے تعلق رکھنے والے سابق سینیٹر امرجیت ملہوترا نے انکشاف کیا کہ: ’بلدیو کی اہلیہ پاکستان میں نہیں رہنا چاہتی تھیں، اسی وجہ سے بلدیو بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘

بھارتی میڈیا کیا کہتا ہے؟

 بھارتی میڈیا نے بلدیو کمار کے کیس کو عین اُس دن توجہ دی جب پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے جینیوا میں اقوام متحدہ کی انسانی حقوق کونسل کے اجلاس سے خطاب کرنا تھا۔

اپنے خطاب میں پاکستانی وزیر خارجہ نے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں جاری ظلم و ستم کا ذکر کیا اور دنیا سے اس کا نوٹس لینے کی درخواست کی۔

بلدیو کمار نے اتوار (8 ستمبر) کی صبح بھارتی دارالحکومت نئی دلی میں میڈیا سے گفتگو کی۔ تقریباً تمام بڑے بھارتی نجی ٹی وی چینلز نے ان کے ویڈیو بیپرز کیے اور ان سے پاکستان میں اقلیتوں پر ظلم ستم سے متعلق کئی سوالات کیے۔

اسی طرح بھارتی اخبارات نے بھی بلدیو کی میڈیا سے گفتگو کو اپنی ویب سائٹس پر شائع کیا۔

ٹی وی چینلز اور اخبارات کے علاوہ سوشل میڈیا پر بھی بلدیو کمار سے متعلق ٹرینڈز گردش کر رہے ہیں۔

36 گھنٹے کے رکن اسمبلی

تحریک انصاف نے 18-2013 کی خیبر پختونخوا اسمبلی میں مذہبی اقلیتوں کی مخصوص نشست کے لیے ڈاکٹر سورن سنگھ کو نامزد کیا تھا، جنہیں بعد میں صوبائی وزیر اعلیٰ کا مشیر تعینات کیا گیا۔

پارٹی کی جانب سے الیکشن کمیشن کو دی جانے والی ترجیحی فہرست میں بلدیو کا نام متبادل امیدوار کی حیثیت سے شامل تھا۔

اپریل 2016 میں سورن سنگھ کو نامعلوم افراد نے قتل کر دیا اور متبادل امیدوار ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن نے بلدیو کمار کو رکن پختونخوا اسمبلی مقرر کیا، تاہم ابھی انہوں نے رکن اسمبلی کی حیثیت سے حلف بھی نہیں اٹھایا تھا کہ انہیں سورن سنگھ کے قتل کیس میں گرفتار کر لیا گیا۔

بلدیو دو سال تک زیر حراست رہے۔ اس دوران صوبائی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر نے بلدیو کے پروڈکشن آرڈرز جاری کیے لیکن اپنی ہی جماعت کے اراکین اسمبلی کی مخالفت کے باعث ان کی حلف برداری ممکن نہ ہو سکی۔

بونیر کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بلدیو کو اپریل 2018 میں شواہد کی عدم موجودگی کے باعث بری کر دیا اور انہوں نے 26 مئی کو خیبر پختونخوا اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھایا۔

تاہم صوبائی اسمبلی 28 مئی کو اپنی پانچ سالہ مدت پوری ہونے پر تحلیل ہو گئی اور یوں بلدیو کمار صرف 36 گھنٹوں کے لیے رکن اسمبلی رہ سکے تھے۔

سورن سنگھ کا خاندان کیا کہتا ہے؟

مرحوم ڈاکٹر سورن سنگھ کے بیٹے اجے سنگھ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں حیرت کا اظہار کیا کہ بلدیو کمار کو ملک سے جانے کیوں دیا گیا؟

انہوں نے کہا کہ ’بلدیو کمار پر ایک سابق مشیر کے قتل کا الزام ہے اور مقدمہ اس وقت پشاور ہائی کورٹ کے سامنے زیر التوا ہے، جس کی 30 ستمبر کو سماعت ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ یہ حکومت اور حکومتی اداروں کی ناکامی ہے کہ دہشت گردی کے الزامات میں ملوث شخص یوں ملک سے  بھاگ جائے۔

اجے سنگھ نے مزید کہا کہ پاکستان کو بھارتی حکومت سے بلدیو کمار کی واپسی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔

بلدیو کمار سورن سنگھ قتل کے مقدمے کے علاوہ دوسرے مقدمات میں بھی ملوث رہے ہیں۔ بری کوٹ (سوات) میں غلیگے پولیس سٹیشن میں ان کے خلاف شراب کی غیر قانونی فروخت کی دو ایف آئی آر درج ہیں۔

غلیگے تھانہ کے ایس ایچ او اختر ایوب نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ بلدیو کمار پر چند سال قبل شراب کی فروخت کا الزام لگایا گیا تھا اور ان کے خلاف ایف آئی آر بھی کاٹی گئی تھی۔

تحریک انصاف کا موقف

خیبر پختونخوا کی گذشتہ سمبلی میں تحریک انصاف کے اکثر اراکین بلدیو کمار کو سورن سنگھ کے قتل میں ملوث سمجھتے تھے۔

فروری 2018 میں جب پروڈکشن آرڈر کے تحت بلدیو کو حلف برداری کی خاطر صوبائی اسمبلی لایا گیا تو تحریک انصاف کے اراکین نے ان کے حلف اٹھانے میں رکاوٹیں پیدا کیں۔ یہاں تک کہ تحریک انصاف کے ایک رکن اسمبلی نے بلدیو کی طرف اپنا جوتا بھی اچھالا تھا۔

تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آنجہانی سورن سنگھ کے اہل خانہ سے بھی ملاقات کی تھی۔

خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی کے مطابق: ’بلدیو کمار کی پارٹی رکنیت اُسی وقت ختم کر دی گئی تھی اور ان کا تحریک انصاف سے تعلق نہیں ہے۔‘

انہوں نے ایک میڈیا بیان میں بلدیو کمار کی بھارت میں سیاسی پناہ حاصل کرنے سے متعلق کہا: ’وہ جہاں چاہیں رہ سکتے ہیں۔ سو مرتبہ جائیں یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے۔‘

تاہم شوکت یوسفزئی نے بلدیو کے اقلیتوں پر ظلم و ستم سے متعلق الزامات کی تردید کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان میں ہر مذہب کے لوگ پوری طرح آزاد ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’پاکستانی حکومت مذہبی اقلیتوں کو پوری طرح تحفظ فراہم کرتی ہے اور اقلیتوں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شہری پر امن زندگی بسر کر رہے ہیں۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے رہنما اور وفاقی وزیر برائے سائنس و ٹیکنالوجی فواد چوہدری نے اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہا کہ ’المیہ ہے کہ بلدیو کمار نے سورن سنگھ کا قتل کیا اور اس وجہ سے رکن سمبلی بن گئے کیونکہ ان کا نام فہرست میں متبادل کے طور پر موجود تھا، اب بھارت میں چند لوگ ایک ایسے مجرم کی جانب سے پناہ کی درخواست پر جشن منارہے ہیں، جو مقدمے سے بچنے کے لیے سیاسی پناہ حاصل کرنا چاہتا ہے۔‘

 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان