پچھلے چند دنوں سے شام میں حکومت کے حامیوں اور دروز جنگجوؤں کے درمیان خونریز جھڑپیں ہوئی ہیں جن کے نتیجے میں درجنوں لوگ مارے گئے ہیں۔
جب شام کی سرکاری فوج سویدا میں داخل ہوئی تو اس کے جواب اسرائیل نے سویدا کی طرف بڑھتی ہوئی شامی سرکاری فوج پر فضائی حملے شروع کر دیے ہیں، اور اس کا کہنا ہے کہ وہ دروز برادری کو بچانے کے لیے یہ حملے کر رہا ہے۔
اس کے بعد اسرائیل نے شام کے دارالحکومت دمشق پر بھی حملے کیے ہیں جن میں وزارتِ دفاع کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستان نے بھی ان حملوں کی مذمت کی ہے اور اسرائیل کو جوابدہ ٹھہرانے کا مطالبہ کیا ہے۔
بشار الاسد کی حکومت گرنے کے بعد جب شام میں احمد الشرع کی حکومت آنے کے بعد دروز برادری کو گلہ ہے کہ انہیں نئی حکومت میں مناسب حصہ نہیں دیا جا رہا۔
اسرائیل ان کو کیوں بچانا چاہتا ہے؟
منگل کو اسرائیلی وزیرِ اعظم بن یامین نتن یاہو کے دفتر نے ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا کہ اسرائیل ’شامی دروز برادری کو نقصان سے بچانے کے لیے پرعزم ہے، کیوں کہ اسرائیل میں بسنے والے دروز شہریوں کے ساتھ اس کا گہرا برادرانہ اتحاد ہے اور ان شہریوں کے شامی دروز برادری سے خاندانی اور تاریخی تعلقات ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسرائیل میں ڈیڑھ لاکھ کے قریب دروز بستے ہیں جن کے یہودی اکثریت کے ساتھ گہرے تعلقات ہیں۔
لیکن معاملہ اتنا سادہ نہیں ہے۔ اسرائیل کے لیے شام پر حملے کوئی نئی بات نہیں ہے اور دسمبر 2024 میں بشار الاسد کی حکومت ختم ہونے کے بعد سے وہ شام پر سینکڑوں بار بمباری کر چکا ہے۔
اس کے علاوہ اس نے گولان کے علاقے میں شام کی تقریباً چار سو مربع کلومیٹر علاقے پر بھی قبضہ کر لیا ہے۔
سابق اسرائیلی سفیر ایلون پنکس نے اسرائیل کے حملوں کا تجزیہ کرتے ہوئے ’الجزیرہ‘ کو بتایا کہ نتن یاہو خود کو ایک ایسے جنگی ہیرو کے روپ میں دیکھ رہے ہیں جو مشرقِ وسطیٰ کا نقشہ تبدیل کر رہا ہے: ’وہ ایک متحدہ شام نہیں دیکھنا چاہتے جس میں (شام کے عبوری صدر) احمد الشرع کے زیر کنٹرول ایک مضبوط مرکزی حکومت ہو۔ وہ ایک کمزور مرکزی حکومت چاہتے ہیں جس کو شمال میں کردوں اور جنوب میں دروز اور بدوؤں کے زیر تسلط علاقوں سے نمٹنا پڑے۔‘
دروز کون ہیں؟
شام میں دروز برادری کی بڑی تعداد سویدا صوبے اور گولان کی پہاڑیوں کے آس پاس رہتی ہے، جہاں 20 ہزار سے زائد دروز آباد ہیں۔ اس کے علاوہ لبنان، اردن اور اسرائیل میں بھی آباد ہیں اور ان کی کل تعداد کا تخمینہ آٹھ سے دس لاکھ لگایا جاتا ہے۔
دروز نسلی اور ثقافتی طور پر عرب ہیں اور عربی زبان بولتے ہیں مگر وہ ایک الگ مذہب سے تعلق رکھنے والی برادری ہے۔ دروز مذہب کی بنیاد 11ویں صدی میں مصر کے فاطمی خلیفہ حاکم بامر اللہ کے دور میں رکھی گئی۔
دروز لفظ محمد بن اسماعیل الدرزی کے نام سے نکلا ہے، تاہم یہ خود کو ’الموحدین،‘ یعنی توحید پر عمل کرنے والا کہتے ہیں۔
ان کے عقائد کی بنیاد ایک خفیہ فلسفیانہ نظام پر ہے، جسے صرف منتخب افراد ہی مکمل طور پر جان سکتے ہیں۔ ان کے مقدس متون کو ’کتب الحکم‘ کہا جاتا ہے، جو صرف مخصوص مذہبی رہنماؤں تک محدود ہیں۔
دروز اپنے عقائد کو دوسروں سے چھپاتے ہیں، جسے ’تقیہ‘ کہا جاتا ہے، اور ان کی عبادات خفیہ ہوتی ہیں۔
دروز توحید کے قائل ہیں اور اللہ کو ایک لازوال، غیر مادی ہستی مانتے ہیں۔ ان کے عقائد اسلام، مسیحیت اور یہودیت سے ملتے ہیں، البتہ انہوں نے ہندو مذہب سے بھی استفادہ کیا ہے، مثال کے طور پر آواگون، یعنی روحوں کے دوبارہ دنیا میں آنے کا نظریہ وہاں سے لیا گیا ہے۔
دروز نماز، روزہ، حج وغیرہ جیسی عبادات کے قائل نہیں ہیں، البتہ ان کے ہاں نیکی، صداقت، وفاداری، اور علم کا بہت مقام ہے۔
دروز اپنے اہلِ مذہب سے شادی کرتے ہیں اور دوسرے مذاہب سے شادی کو پسند نہیں کرتے۔ یہ تبدیلیِ مذہب کے قائل نہیں، یعنی کوئی دروز نہیں بن سکتا، اور جو دروز ہے وہ مذہب چھوڑ نہیں سکتا۔
دروز قومی سطح پر اکثر خود کو وفادار شہری ثابت کرتے ہیں اور جس ملک میں رہتے ہیں، اس کی خدمت کرتے ہیں۔