دبئی کے گلوبل ولیج میں شاہی انداز میں استقبال کرنے والے کراچی کے شہری

عابد برہان الدین نے بتایا کہ جب وہ مہمانوں کو اپنے مغلیہ انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں تو اور گائیڈ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی، لوگ ان کے لباس اور اندام کو دیکھتے ہیں اور محظوظ ہوتے ہیں۔ں

کراچی کے شہری عابد برہان الدین دبئی گلوبل ویلج میں آنے والے مہمانوں کا شاہی لباس زیب تن کر کے مخصوص شاہی انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ایک سوال کے جواب میں عابد برہان نے بتایا کہ اردو سے محبت اور شاعری ان کے بس کی بات نہ تھی:

خود ہی چل کہ نہیں یہ طرز سخن آیا ہے

پیر دبائے ہیں بزرگوں کے تو یہ فن آیا ہے

عابد نے بتایا کہ وہ لڑکپن سے ہی شاعری کے بہت شوقین تھے۔ شاعری کو سنتے تھے اور اپنے دماغ میں بٹھا لیا کرتے تھے جیسا کہ مرزا غالب کا ایک شعر تھا:

ظلمت کدے میں میرے شبِ غم کا جوش ہے

اک شمع ہے دلیلِ سحر سو خموش ہے

آتے ہیں غیب سے یہ مضامیں خیال میں

غالب صریرِ خامہ نوائے سروش ہے

انہوں نے کہا کہ یہ اتنی گہری اردو تھی کہ ’مجھے اسے سمجھنے میں بہت تحقیق کرنی پڑی۔ اس کے بعد جب مجھے اس کے معنے پتا چلے تو اردو سے اور لگاؤ اور پیار ہو گیا۔

ان کے مطابق جب انہوں نے سوچا کہ اس دور میں انسٹاگرام، ٹک ٹاک، فیس بک، سوشل میڈیا  کے اس دور میں اردو ادب کہیں دم توڑ رہا ہے تو ان کے پاس بس ایک یہی راستہ بچا کہ وہ اس شاہی لباس میں آ کر اپنے جتنے بھی مہمان آتے ہیں بندو خان میں انہیں اپنے انداز میں شاعری سنائیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’یہی ہماری زندگی کا محور ہے اور ہمیں بہت خوشی ہوتی ہے اپنے اس کام سے کیوں کہ ہمارے اس کام سے لوگوں کے چہروں پہ مسکراہٹ آتی ہے۔ وہ ہنستے ہیں اور جب وہ ہنستے ہیں تو یقین کیجیے ہم رات کو نوٹ نہیں گنتے ہم ان کی مسکراہٹ گن کے سوتے ہیں۔‘

عابد برہان الدین اردو، عربی، فارسی، انگلش، گجراتی، ہندی تمام زبانوں میں استقبال کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ ’شاہی لباس میں جو آپ دیکھ رہے ہیں یہ ہیرے جواہرات، جنہیں ہم اپنی شان بناتے ہیں پہن کر اور یہ ہمارا شاہی گاؤن ہے اور یہ ہمارا تاج ہے اور اسے پہن کر ہم شاہی بن جاتے ہیں اور ہمارے جتنے بھی مہمان ہوتے ہیں وہ بھی شاہی ہوتے ہیں۔‘

عابد برہان الدین نے بتایا کہ ’جب  مہمانوں کو ہم اپنے مغلیہ انداز میں خوش آمدید کہتے ہیں تو انہیں یقین کریں گائیڈ کرنے کی ضرورت نہیں پڑتی جب وہ ہمیں دیکھتے ہیں اس لباس میں اور ہمارے انداز کو تو وہ محظوظ اتنے ہوتے ہیں کہ وہ کھڑے ہو جاتے ہیں وہ ہمیں دیکھتے ہی رہتے ہیں اب ہم چاہے کچھ بھی بول رہیں ہیں اردو میں کچھ بھی کہہ رہے ہیں وہ کہتے ہیں۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی میگزین