’واپسی کا راستہ نہیں‘: نگران حکومت پی آئی اے کی نجکاری کو تیار

نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے سوال پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہمارا کام 98 فیصد ہو چکا ہے، بقیہ دو فیصد کام کو صرف کابینہ کی منظوری کے بعد ایکسل شیٹ پر لانا ہے۔‘

پی آئی اے کے طیارے 10 اکتوبر، 2012 کو اسلام آباد کے بے نظیر انٹرنیشنل ایئرپورٹ پر کھڑے ہیں (اے ایف پی/ فاروق نعیم)

پاکستان کی نگران انتظامیہ میں وزیر نجکاری فواد حسن فواد اور دیگر حکام کا کہنا ہے کہ نگران حکومت خسارے کی شکار پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کے لیے نئی حکومت کے لیے منصوبہ بندی کر رہی ہے۔

اس سے قبل پاکستان کی منتخب حکومتوں نے قومی ایئر لائن کی فروخت سمیت دیگر اصلاحات لانے جیسے اقدامات سے احتراز کیا، تاہم اب عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ معاہدے کے بعد معاشی مشکلات میں گھری حکومت نے پی آئی اے کی نجکاری کا فیصلہ کیا ہے۔

آٹھ فروری کے عام انتخابات کی نگرانی کے لیے قائم ہونے والی نگران حکومت کو سبکدوش ہونے والی پارلیمنٹ نے آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ بجٹ کے اہداف کو پورا کرنے کے لیے ضروری اقدامات کرنے کا اختیار دیا تھا۔

نگران وزیر برائے نجکاری فواد حسن فواد نے پی آئی اے کی فروخت کے حوالے سے سوال پر خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا: ’ہمارا کام 98 فیصد ہو چکا ہے، بقیہ دو فیصد کام کو صرف کابینہ کی منظوری کے بعد ایکسل شیٹ پر لانا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ٹرانزیکشن ایڈوائزر ’ارنسٹ اینڈ ینگ‘ کی طرف سے تیار کردہ منصوبے کو عام انتخابات کے بعد نگران انتظامیہ کی مدت ختم ہونے سے قبل منظوری کے لیے کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا اور کابینہ یہ فیصلہ بھی کرے گی کہ شیئرز کو ٹینڈر کے ذریعے فروخت کرنا ہے یا حکومت سے حکومت کے معاہدے کے ذریعے۔

فواد حسن فواد نے کہا کہ ’ہم نے صرف چار مہینوں میں جو کچھ کیا ہے، ماضی کی حکومتیں ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے یہ سب کرنے کی کوشش کر رہی تھیں۔ اب واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہے۔‘

ابھی تک پی آئی اے کی فروخت کے عمل کی تفصیلات سامنے نہیں آئی ہیں۔

پی آئی اے پر 785 ارب پاکستانی روپے کے واجبات تھے اور گذشتہ سال جون تک اسے 713 ارب روپے کا خسارہ ہوا تھا۔ کمپنی کے سی ای او نے کہا تھا کہ 2023 میں 112 ارب روپے کا نقصان ہونے کا امکان ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اگر موجودہ بیل آؤٹ پروگرام مارچ میں ختم ہونے کے بعد آنے والی منتخب حکومت آئی ایم ایف کے پاس واپس چلی جاتی ہے تو پی آئی اے کے معاملے پر پیش رفت ایک اہم مسئلہ ہو گی۔

نگراں وزیر خزانہ شمشاد اختر نے گذشتہ سال صحافیوں کو بتایا تھا کہ پاکستان کو مدت ختم ہونے کے بعد آئی ایم ایف کے پروگراموں کا حصہ رہنا پڑے گا۔

نجکاری کے عمل سے واقف دو ذرائع نے روئٹرز کو بتایا کہ ارنسٹ اینڈ ینگ کی 11 سو  صفحات پر مشتمل رپورٹ کے تحت پی آئی اے کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کے ذمے ڈال کر خریداروں کو مکمل انتظامی کنٹرول کے ساتھ 51 فیصد شیئرز کی پیشکش کی جائے گی۔

روئٹرز آزادانہ طور پر اس رپورٹ کے مندرجات کی تصدیق نہیں کر سکا۔ دوسری جانب نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے فروخت کیے جانے والے حصص کے سائز کے بارے میں بھی مخصوص تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن انہوں نے اس منصوبے کی تصدیق کی کہ پی آئی اے کے قرضوں کو ایک علیحدہ ادارے کے ذمے ڈالے جانا اس میں شامل تھا۔

ارنسٹ اینڈ ینگ نے روئٹرز کی جانب سے تبصرے کی درخواستوں کا جواب نہیں دیا۔

پی آئی اے کے ترجمان عبداللہ حفیظ خان نے کہا کہ ایئرلائن نجکاری کے عمل میں معاونت کر رہی ہے اور ٹرانزیکشن ایڈوائزر کو ’مکمل تعاون‘ فراہم کر رہی ہے۔

پاکستان کی پارلیمنٹ کی ویب سائٹ پر پوسٹ کیے گئے ایک مسودے کے مطابق پی آئی اے کی فروخت کے لیے آپریشنل اور تکنیکی اقدامات کے علاوہ نگراں حکومت نے 2016 کے ایک قانون میں بھی ترمیم کی ہے جس کے ذریعے اس کے اکثریتی حصص کی فروخت نہیں ہوسکتی تھی۔

آٹھ فروری کے انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی سرگرمیاں جاری ہیں۔

مسلم لیگ ن کے قائد و سابق وزیراعظم شریف کے قریبی ساتھی اور سابق وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے روئٹرز کو بتایا کہ پی آئی اے کی فروخت تیزی سے کی جائے گی۔

انہوں نے کہا: ’انشاء اللہ یہ (عمل) تیز رفتاری کے ساتھ آگے بڑھے گا۔‘

گذشتہ ماہ جنوری کے وسط میں ایک رپورٹ میں آئی ایم ایف نے نگران حکومت کی جانب سے سرکاری اداروں میں اصلاحات کو تیز کرنے کے لیے شروع کیے گئے اقدامات پر اطمینان کا اظہار کیا تھا۔ اس رپورٹ میں خاص طور پر پی آئی اے کی نجکاری کے قانون میں ترمیم کا ذکر کیا گیا۔

فواد حسن فواد اور دیگر دو ذرائع کے مطابق ارنسٹ اینڈ ینگ کی جانب سے 27 دسمبر کو حکومت کو جمع کروائے گئے نجکاری کے منصوبے کے تحت، حکومت کی طرف سے گارنٹی شدہ اور قابل ادائیگی قرضے، جو سات ملکی بینکوں کے کنسورشیم کے پاس ہیں، کو ایک ہولڈنگ کمپنی میں پارک کیا جائے گا۔

نگران وزیر نجکاری فواد حسن فواد نے کہا کہ حکومت اور کنسورشیم کے درمیان لیگیسی (وراثتی) قرضے کے تصفیے کے حوالے سے ایک معاہدہ ہوا ہے، جس میں قرضوں میں 825 ارب روپے کی منفی ایکویٹی (قرضے کی وہ صورت جب اثاثوں کی مالیت زر رہن سے کم رہ جائے)، قرض دہندگان کی رقم اور نقصانات شامل ہیں۔ تاہم انہوں نے اس حوالے سے مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں۔

اس سے قبل ذرائع نے کہا تھا کہ بینک قرض کے خلاف 16.5 فیصد کوپن کے ساتھ کاغذ پر پانچ سالہ بانڈ جاری کرنا چاہتے ہیں جبکہ وزارت خزانہ صرف 10 فیصد کی پیشکش کر رہی ہے۔

تاہم بینکوں نے اس معاہدے کے حوالے سے کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔

نقصانات اور قرضوں کے علاوہ پی آئی اے کی گورننس اور حفاظتی معیارات پر کچھ سالوں سے عالمی ایوی ایشن حکام نے سوالات اٹھائے ہیں۔

پی آئی اے کے انکوائری بورڈ کی خفیہ رپورٹ،  جس کا روئٹرز نے جائزہ لیا تھا، کے مطابق 2020 کے اوائل میں جمہوریہ چیک اور ہنگری کی فضائیہ کے جیٹ طیاروں نے 300 مسافروں پر مشتمل پی آئی اے کی ایک پرواز کو روکا، جو پائلٹ کی ایک ’قابلِ گریز انسانی غلطی‘ کی وجہ سے بھٹک گئی تھی۔

اسی سال مئی میں کراچی میں پی آئی اے کے طیارے کے حادثے میں تقریباً 100 اموات ہوئی تھیں اور 2020 کے بعد جعلی پائلٹ لائسنس کا سکینڈل سامنے آیا تھا، جس کی وجہ سے یورپی یونین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی (ای اے ایس اے) نے پی آئی اے پر یورپ اور برطانیہ میں پروازوں پر پابندی لگا دی تھی۔

پارلیمنٹ میں پیش کیے گئے حکومتی ریکارڈ کے مطابق 2020 کی پابندی اب بھی برقرار ہے، جس سے پی آئی اے کو سالانہ تقریباً 40 ارب روپے کا نقصان پہنچا ہے۔

روئٹرز نے ای اے ایس اے اور پی آئی اے کے درمیان خط و کتابت کا جائزہ لیا ہے، جس کے مطابق ایئر لائن نے یورپی ایجنسی سے عارضی طور پر پابندی ہٹانے کی درخواست کی، تاہم اس کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

پی آئی اے کے مطابق حالیہ مہینوں میں پاکستان کے مالیاتی بحران کی وجہ سے قرض دہندگان کی جانب سے پی آئی اے کے طیارے کو بھی ضبط کیا گیا۔ ایئرلائن کے مطابق ایک طیارہ کوالالمپور ہوائی اڈے پر لیز فیس کی عدم ادائیگی پر اور دوسرا ٹورنٹو میں گراؤنڈ ہینڈلنگ کی عدم ادائیگی پر ضبط ہوا۔

تین حکومتی اور پی آئی اے ذرائع نے بتایا کہ اب جبکہ قومی ایئر لائن اپنی فروخت کے بارے میں حکومتی فیصلے کی منتظر ہے، اسے مالی مدد کی ضرورت ہے اور نئے خریدار کو کنٹرول دینے سے پہلے اسے مزید پانچ سے چھ ماہ تک چلانے کے لیے 23.7 ارب روپے درکار ہیں۔

بڑا چیلنج

تاہم ہر کوئی اس ادارے کی فروخت کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھنے سے متفق نہیں ہے۔

پی آئی اے کے تین سینیئر عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر روئٹرز کو بتایا کہ تیزی سے فروخت سے ایئرلائن کی قدر کم ہو سکتی ہے اور یہ کہ شفاف لین دین نہیں ہو گا۔

ایک عہدیدار نے کہا: ’ہم اس کی نجکاری کے خلاف نہیں ہیں، ہم صرف یہ چاہتے ہیں کہ آپ اسے پھینکیں مت۔‘

تاہم سنگاپور میں مقیم ایوی ایشن تجزیہ کار برینڈن سوبی نے کہا کہ پی آئی اے شدید مشکلات کا شکار ہے اور حکومت کو پیش کیا گیا منصوبہ ’بنیادی طور پر ایئر لائن کو بچانے کا واحد آپشن تھا۔‘

انہوں نے کہا کہ ’یہ نجکاری چیلنجنگ ہوگی اور اس کی فروخت ممکن نہیں ہے جب تک کہ اس کی تنظیم نو کی جائے اور قرضوں کی ادائیگی نہ کی جائے۔‘

ایئرلائن کے ریکارڈ کے مطابق پی آئی اے کے 150 سے زائد ممالک کے ساتھ فضائی سروس کے معاہدے ہیں اور یورپی یونین کی پابندی کے باوجود اسے سالانہ تقریباً 280 ارب روپے کی آمدنی ہوتی ہے۔

ہیتھرو ایئرپورٹ پر پی آئی اے کے 10 مقامات (Slots) ہیں اور پی آئی اے کے دو حکام کے مطابق اس وقت اس کی مالیت 70 ارب روپے سالانہ ہے۔ اسی طرح مانچسٹر میں مزید نو اور برمنگھم میں پی آئی اے کی ملکیت میں چار مقامات ہیں۔

پی آئی اے حکام نے بتایا کہ ترکش اور کویتی ایئر لائنز پی آئی اے کے ساتھ کاروباری انتظامات کے تحت 70 فیصد سلاٹس چلا رہی ہیں۔

2023 کی ایئر لائن کی سالانہ رپورٹ کے مطابق اس کے علاوہ پی آئی اے کے اثاثوں میں ہوائی جہاز، پیرس اور نیویارک میں ہوٹل اور دیگر جائیدادیں شامل ہیں۔

تاہم پی آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ اثاثوں کی مارکیٹ ویلیو ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہو سکتی ہے۔ ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی صورت میں ایئرلائن کی ملکیت میں موجود ہوٹل اور دیگر جائیدادیں فروخت نہیں ہوں گی۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت