ہمارے شہریوں نے روسی فوج کے لیے کام کیا، انڈیا کی تصدیق

انڈیا کی وزارت خارجہ نے تصدیق کی کہ ملک کے کچھ شہریوں نے روسی فوج کے ساتھ ’معاون ملازمتوں‘ کے لیے معاہدہ کیا تھا۔

انڈین وزیر خارجہ ایس جے شنکر 27 اگست، 2023 کو نئی دہلی میں سہ روزہ بی-20 سمٹ کے ایک سیشن میں شریک ہیں (اے ایف پی)

انڈیا کی وزارت خارجہ نے جمعے کو تصدیق کی کہ ملک کے کچھ شہریوں نے روسی فوج کے ساتھ ’معاون ملازمتوں‘ کے لیے معاہدہ کیا ہے۔

وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ وہ انڈین شہریوں کی ان کے کام سے علیحدگی یقینی بنانے کے لیے ماسکو کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق انڈین اخبار دی ہندو نے بدھ کو خبر دی تھی کہ تقریباً 18 انڈین شہری یوکرین میں روس کی جنگ کے اگلے محاذ پر مختلف سرحدی قصبوں میں محصور ہیں۔

اخبار کی رپورٹ کے مطابق کم از کم تین انڈین شہریوں کو روسی فوج کے شانہ بشانہ لڑنے پر مجبور کیا گیا۔

وزارت خارجہ نے اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ انڈین شہریوں نے اس تنازعے میں جنگی کردار ادا کیا یا نہیں۔

وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق: ’اس بات سے واقف ہیں کہ کچھ انڈین شہریوں نے روسی فوج کے ساتھ معاون ملازمتوں کے لیے دستخط کیے۔‘

وزارت خارجہ کے بیان میں کہا گیا کہ ’(انڈین) سفارت خانہ باقاعدگی سے اس معاملے کو متعلقہ روسی حکام کے ساتھ اٹھا رہا ہے تاکہ انہیں (انڈین شہریوں کو) جلد ان کے کام سے الگ کروایا جا سکے۔‘

’ہم تمام انڈین شہریوں پر زور دیتے ہیں کہ وہ احتیاط برتیں اور اس تنازعے سے دور رہیں۔‘

دی ہندو کی رپورٹ میں الزام لگایا گیا کہ دبئی میں بھرتی کرنے والوں نے انڈین شہریوں کو زیادہ اجرت اور روسی پاسپورٹ کا وعدہ کرکے دھوکہ دیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ماسکو پہنچنے کے بعد انڈین شہریوں کو مبینہ طور پر روسی فوج کی طرف سے ہتھیاروں اور گولہ بارود کی دیکھ بھال کی تربیت دی گئی اور جنوری میں اگلے محاذ پر بھیج دیا گیا۔

اخبار کا کہنا ہے کہ اگرچہ کچھ انڈین شہریوں نے لڑائی میں یوکرین کی افواج کے لیے مبینہ طور پر رضاکارانہ طور پر کام کیا لیکن انڈین شہریوں کے روسی فوج کے ساتھ مبینہ طور پر کام کرنے کا یہ پہلا واقعہ ہے جو سامنے آیا۔

ان میں سے ایک شخص نے اخبار کو بتایا تھا کہ واپسی کے لیے ان کی ’بار بار کی درخواستوں‘ پر ماسکو میں انڈین سفارت خانے نے ’توجہ نہیں دی۔‘

روسی حملے کے آغاز کے دو سال بعد یوکرین کے صدر ولادی میر زیلنسکی نے تسلیم کیا کہ اگلے محاذ پر ایک ’انتہائی مشکل‘ صورت حال ہے۔

یوکرین امریکی امداد رکنے، بڑی اور طاقت ور فوج کے خلاف اپنی ناکام جوابی کارروائی اور گولہ بارود کی بڑھتی ہوئی قلت کی وجہ سے کمزور پڑ گیا ہے۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا