روس نے یوکرین پر الزام عائد کیا ہے کہ اس نے جان بوجھ کر کیئف کے 65 گرفتار فوجی قیدیوں کو لے جانے والے روسی فوجی ٹرانسپورٹ طیارے کو مار گرایا ہے۔ ان یوکرینی فوجیوں کو قیدیوں کے تبادلے کے لیے لے جایا جا رہا تھا۔
خبررساں ایجنسی روئٹرز کے مطابق یوکرین نے ان حالات کی مکمل وضاحت طلب کی ہے، جن میں واقعہ پیش آیا اور براہ راست اس بات کی تصدیق نہیں کی کہ اس نے طیارے کو مار گرایا ہے۔
یوکرین کے صدر وولودی میر زیلینسکی نے اپنے خطاب میں کہا: ’یہ واضح ہے کہ روسی یوکرین کے قیدیوں کی زندگیوں، ان کے پیاروں کے جذبات اور ہمارے معاشرے کے احساسات کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔‘
روسی وزارت دفاع نے کہا کہ ’یوکرین کی سرحد کے قریب روسی شہر بیلگورود کے قریب گرائے گئے ایلیوشین ایل-76 فوجی طیارے میں عملے کے چھ ارکان اور تین روسی فوجی سوار تھے۔‘
ایک طویل وقفے کے بعد، یوکرین کی فوج نے کہا کہ وہ روسی فوجی نقل و حمل والے ان طیاروں کو تباہ کرتی رہے گی، جن کے بارے میں اس کا خیال ہے کہ وہ یوکرین کو نشانہ بنانے کے لیے میزائل لے جا رہے تھے۔
انہوں نے کہا: ’یوکرینی فوج نے بیلگورود میں روسی فوجی نقل و حمل والے زیادہ طیاروں کو اترتے ہوئے دیکھا، جن کا تعلق خارکیو اور یوکرین کے دیگر شہروں پر روسی میزائل حملوں سے ہے۔‘
فضائیہ کے کمانڈر میکولا اولیشک نے روس پر الزام لگایا کہ وہ یوکرین کے لیے بین الاقوامی حمایت کم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
انہوں نے کہا: ’یوکرین کو اپنا دفاع کرنے اور حملہ آوروں کے فضائی حملے کے ذرائع کو تباہ کرنے کا حق حاصل ہے۔‘
روسی وزارت دفاع کے مطابق: ’یہ تبادلہ بدھ کی سہ پہر کولوٹیلوکا سرحدی چوکی پر ہونا تھا اور یوکرین جانتا تھا کہ پکڑے گئے یوکرین کے فوجیوں کو لے جانے والا ایک ٹرانسپورٹ طیارہ بیلگورود ایئر فیلڈ پر اتر سکتا ہے۔‘
وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ ’اس دہشت گردانہ کارروائی کا ارتکاب کرکے یوکرین کی قیادت نے اپنا اصل چہرہ دکھا دیا ہے۔ اس نے اپنے ہی شہریوں کی زندگیوں کو نظر انداز کیا۔‘
روس کے وزیر خارجہ سرگے لاوروف نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ ’روس یوکرین کے مجرمانہ اقدام کی وجوہات جاننا چاہتا ہے۔‘
اقوام متحدہ میں فرانس کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’یہ اجلاس جمعرات کو مقامی وقت کے مطابق شام پانچ بجے ہو گا۔‘
ادھر یوکرین کی جی یو آر ملٹری انٹیلی جنس ایجنسی کا کہنا ہے کہ ’یوکرین کو بیلگورود کے ارد گرد فضائی حدود کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے نہیں کہا گیا تھا اور نہ ہی اس بارے میں مطلع کیا گیا تھا کہ نقل و حمل کے کون سے ذرائع اور کون سے راستے استعمال کیے جائیں گے۔‘
جی یو آر نے ٹیلی گرام پر ایک بیان میں کہا کہ ’اس بنیاد پر، ہم یوکرین کی صورت حال کو غیر مستحکم کرنے اور اپنی ریاست کے لیے بین الاقوامی حمایت کو کمزور کرنے کی غرض سے روس کی منصوبہ بند اور دانستہ کارروائیوں کے بارے میں بات کر سکتے ہیں۔‘
روس کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ ’ریڈار آپریٹرز نے حادثے کے وقت یوکرین کے دو میزائلوں کے لانچ کا سراغ لگا لیا تھا۔‘
اگر تفصیلات کی تصدیق ہو جاتی ہے تو یہ تقریباً دو سالہ جنگ کے دوران روس کی بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر اپنی نوعیت کا سب سے جان لیوا واقعہ ہو گا۔
قیدیوں کے تبادلے کا شیڈول طے تھا: یوکرین
یوکرین کی انٹیلی جنس ایجنسی نے تصدیق کی ہے کہ بدھ کو قیدیوں کے تبادلے کا منصوبہ تھا، گرفتار روسی فوجیوں کو مقررہ وقت پر طے شدہ تبادلے کے مقام پر پہنچا دیا گیا تھا اور وہ محفوظ تھے۔
بیان میں کہا گیا: ’30 کلومیٹر کے جنگی علاقے میں ٹرانسپورٹ طیارے کی لینڈنگ محفوظ نہیں ہو سکتی اور کسی بھی صورت میں دونوں فریقوں کو اس پر بات چیت کرنی چاہیے کیونکہ بصورت دیگر اس سے تبادلے کا پورا عمل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس کے پاس اس بارے میں کوئی قابل اعتماد معلومات نہیں ہیں کہ تباہ ہونے والے طیارے میں کون تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روسی سکیورٹی سروسز سے منسلک چینل بازا کی جانب سے ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی ویڈیو فوٹیج میں دیکھا جا سکتا ہے کہ بیلگورود کے علاقے میں یابلونوو گاؤں کے قریب ایک بڑا طیارہ زمین پر گرا اور آگ کے گولے کی طرح پھٹ گیا۔
روسی پارلیمان کے رکن اور ریٹائرڈ جنرل آندرے کارتاپولوف نے خبر رساں ادارے ’شوٹ‘ کو بتایا کہ یوکرین کے زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل سسٹم کے آپریٹرز کے لیے یہ ناممکن ہے کہ وہ نقل و حمل والے طیاروں کو فوجی طیارے یا ہیلی کاپٹر سمجھ کر نشانہ بنائیں۔
کارتاپولوف نے کہا کہ ’قیدیوں کے تبادلے کو سبوتاژ کرنے کے لیے جان بوجھ کر ایسا کیا گیا تھا۔‘
انہوں نے کہا کہ ’ایک دوسرا روسی آئی ایل -76 ٹرانسپورٹ طیارہ واپس جانے میں کامیاب رہا، جس میں تقریباً 80 یوکرینی فوجیوں تھے۔‘
روس کی وزارت دفاع سے قریبی تعلقات رکھنے والے کارتاپولوف کا کہنا ہے کہ ’طیارے کو امریکی یا جرمن ساختہ تین میزائلوں سے گرایا گیا تھا۔‘
خبر رساں ایجنسی روئٹرز فوری طور پر اس بات کی تصدیق نہیں کر سکی کہ تباہ ہونے والے طیارے میں کون سوار تھا لیکن فروری 2022 میں روس کی جانب سے یوکرین میں ’خصوصی فوجی آپریشن‘ شروع کیے جانے کے بعد سے ماسکو اور کیئف باقاعدگی سے قیدیوں کا تبادلہ کرتے رہے ہیں۔
یوکرین کی سرحد سے متصل بیلگورود کا علاقہ حالیہ مہینوں میں یوکرین کی جانب سے مسلسل حملوں کی زد میں رہا ہے، جس میں دسمبر کا میزائل حملہ بھی شامل ہے، جس میں 25 افراد مارے گئے تھے۔
مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔