نیپالی گورکھا روس کی طرف سے یوکرین میں کیوں لڑ رہے ہیں؟

روس میں نیپال کے سفیر ملن راج تلادھر نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ تقریباً 200 نیپالی شہریوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ روسی فوج میں کرائے کے فوجیوں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

23 نومبر 2023 کو شمالی انگلینڈ کے علاقے رچمنڈ کے قریب کیٹرک گیریژن میں پاسنگ آؤٹ تقریب کے دوران نیپالی گورکھوں کے بریگیڈ کے سپاہی پریڈ گراؤنڈ میں مارچ کرتے ہوئے (اے ایف پی)

چند ماہ قبل یوکرین کے ایک اہلکار نے ایک شخص کی ویڈیو پوسٹ کی جو روس کے لیے لڑتے ہوئے پکڑا گیا تھا۔ اس شخص کو نہ تو روس نے تربیت دی تھی، نہ ہی وہ اس ملک کا شہری تھا، اور نہ اس کا یوکرین کی جنگ میں کوئی براہ راست حصہ تھا۔

ویڈیو میں کہا گیا ہے کہ اس کے باوجود اس نے ’روسی فضائی افواج کی بریگیڈ میں سے ایک‘ میں خدمات انجام دینے کے لیے چار ہزار کلومیٹر سے زیادہ کا سفر کیا تھا۔

ہمالیائی خطے کی ریاست نیپال، جہاں آبادی اور بے روزگاری بڑھ رہی ہے، سے تعلق رکھنے والے بیبیک کھتری نے صرف پیسوں کے لیے روسی فوج میں شامل ہونے کا اعتراف کیا ہے۔

یوکرین میں وزیر برائے داخلہ امور کے مشیر انتون گیراشینکو کی جانب سے پوسٹ کیے گئے ویڈیو کلپ کے مطابق وہ اپنے فیصلے کا ذمہ دار ملک میں مالی بحران کو قرار دیتے ہیں۔

اس ویڈیو میں بیبیک کھتری کہتے ہیں: ’میرا خاندان مشکل میں ہے۔ میری والدہ کام نہیں کرتیں، ہمیں پیسوں کی ضرورت ہے. لہٰذا، میں نے یہ (روسی فوج میں شامل ہونے کا فیصلہ) کیا۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ان کے دوستوں نے مشورہ دیا کہ وہ کرائے کے سپاہی کے طور پر شامل ہو جائیں۔ ’میں ایک کامیاب آدمی کے طور پر اپنی ماں کے پاس واپس جانا چاہتا تھا، لہذا  میں (فوج میں) شامل ہو گیا۔‘

بیبیک کھتری اکیلے نہیں ہیں جو ماسکو کی پرکشش پیشکشوں کی طرف راغب ہو رہے ہیں۔

روس میں نیپال کے سفیر ملن راج تلادھر نے ’کیئف پوسٹ‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا کہ تقریباً 200 نیپالی شہریوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ روسی فوج میں کرائے کے فوجیوں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔

لامحالہ طور پر، یہ ایک بہت خطرے والا کام ہے۔ یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں فرنٹ لائن پر لڑتے ہوئے کم از کم چھ نیپالی شہری مارے جاچکے ہیں، جس کے بعد حکومت پر عوام کی جانب سے اپنے نوجوانوں کو واپس لانے کا دباؤ ہے۔

بیرون ملک لڑنے کے لیے بھرتی کیے جانے والے نیپالی نوجوان صرف یوکرین کے خلاف ہی نہیں لڑ رہے۔

متعدد رپورٹس سے پتہ چلتا ہے کہ نیپالی کرائے کے فوجیوں کو یوکرین کی طرف سے روس کے خلاف لڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا ہے، جس سے یہ امکان بڑھ گیا ہے کہ ان کا سامنا ایک ایسی جنگ میں اپنے ہی ہم وطنوں سے ہوگا جس میں ان کا کوئی حصہ نہیں۔

اگرچہ نیپال کئی دہائیوں سے برطانوی اور انڈین افواج میں خدمات انجام دینے کے لیے تینوں ممالک کے درمیان باضابطہ معاہدے کے تحت نوجوانوں کو بھیج رہا ہے، لیکن فرانس اور امریکہ سمیت دیگر غیر ملکی فوجوں میں بھی نیپالی شہریوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔

اس ملک کے پاس ان فوجوں میں لڑنے کے لیے فوجیوں کو بھیجنے کے لیے کوئی سٹریٹجک یا دو طرفہ انتظامات نہیں ہیں۔

کھٹمنڈو میں خبروں کی ویب سائٹ ’خبرہب‘ نے یونائیٹڈ سٹیٹس سٹیزن شپ اینڈ امیگریشن سروسز کے 2021 کے اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا کہ گذشتہ پانچ برسوں میں کم از کم ایک ہزار نیپالیوں نے امریکی فوج میں شمولیت اختیار کرکے امریکی شہریت حاصل کی ہے۔

فرانس میں نیپال کے سابق سفیر موہن کرشنا سراستھا نے 2016 میں ’دی ہمالین ٹائمز‘ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ کم از کم 300 نیپالی نوجوانوں کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ فرانس کی خصوصی سروس برانچ میں غیر ملکیوں کے طور پر خدمات انجام دے رہے ہیں۔ اس برانچ کا مقصد ملک سے باہر فرانس کے قومی مفادات کا تحفظ ہے۔

اپنے ملک میں ملازمت کے کم مواقعے اور ملازمین کی کم تنخواہ جیسے عوامل نیپالی نوجوانوں کو بہتر مواقع کی تلاش میں ملک چھوڑنے پر مجبور کر رہے ہیں اور وہ بہادر جنگجوؤں کے طور پر گورکھوں کی شہرت کا فائدہ اٹھا رہے ہیں۔

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن کے مطابق نیپال ایک نوجوانوں کا ملک ہے، جس کی کل آبادی کا 63.7 فیصد کی عمر 30 سال سے کم ہے۔ 15 سے 29 سال کی عمر کے نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 19.2 فیصد ہے جبکہ پوری آبادی میں یہ شرح 2.7 فیصد ہے۔

نیپالی فوج کے ایک ریٹائرڈ میجر جنرل بنوج بسنیات نے ’نیویارک ٹائمز‘ کو بتایا: ’ہر سال جاب مارکیٹ میں آنے والے پانچ لاکھ نوجوانوں میں سے صرف 80 ہزار یا ایک لاکھ افراد کو ہی نیپال میں ملازمت ملتی ہے۔ باقی کہاں جائیں گے؟‘

انڈین فوج نیپالی نوجوانوں کے لیے روزگار کا ایک اہم راستہ رہی ہے، جن میں سے بہت سے پڑوسی ملک کی گورکھا رجمنٹ میں شامل ہونے چلے جاتے ہیں۔

تاریخی طور پر فوج کی ملازمتوں کو جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ محفوظ سمجھا جاتا ہے، جہاں سماجی تحفظ کے ساتھ ساتھ زندگی بھر کے لیے پینشن بھی ملتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لیکن گذشتہ سال انڈیا نے دفاعی بجٹ اور فوجیوں کی مراعات میں کمی کرتے ہوئے اگنی پتھ سکیم کے تحت اپنی مسلح افواج میں اصلاحات متعارف کروائی تھیں، جس کے نتیجے میں ملازمت کا دورانیہ تاحیات کی بجائے چار سال کر دیا گیا۔

چونکہ قواعد میں اچانک تبدیلی سے گورکھوں کے لیے انڈیا جانا کم پرکشش بن گیا تھا، لہذا ان اصلاحات نے دونوں ممالک کے مابین سفارتی تنازع کو جنم دیا۔ نیپالی حکومت نے شکایت کی کہ اس سے مشورہ نہیں کیا گیا تھا اور نہ ہی انہیں پیشگی نوٹس دیا گیا۔

نیپال کے وزیر خارجہ این پی سعود نے اس وقت بی بی سی کو بتایا تھا: ’ہماری پالیسی ہے کہ اگر سہ فریقی معاہدے میں کوئی تبدیلی کی جاتی ہے تو اسے سیاسی اتفاق رائے سے نافذ کیا جانا چاہیے۔‘

ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ انڈیا میں گورکھوں کی بھرتی روک دی جائے گی۔

اس صورت حال نے بھرتیوں کا خلا پیدا کر دیا، چنانچہ جب روسی صدر ولادی میر پوتن نے اعلان کیا کہ ان کی فوج میں ایک سال خدمات انجام دینے والے غیر ملکی شہریوں کی مکمل روسی شہریت کے لیے درخواستوں میں تیزی لائی جائے گی تو بہت سے نیپالیوں کی لائن لگ گئی۔

پولیس کے مطابق نیپالیوں کے لیے کاروبار کے اس موقعے کو اب انسانی سمگلر غلط استعمال کر رہے ہیں۔ کٹھمنڈو پولیس نے حال ہی میں کم از کم 10 افراد کو گرفتار کیا ہے، جن پر الزام ہے کہ وہ سیاحتی ویزے پر لوگوں کو روس سمگل کرنے اور روسی فوج میں شامل کروانے کے لیے فی کس نو ہزار ڈالر وصول کر رہے تھے۔

کھٹمنڈو کے ضلعی پولیس سربراہ بھوپندر کھتری نے بتایا کہ یہ افراد متحدہ عرب امارات کے راستے روس سمگل کیے جا رہے تھے۔ متحدہ عرب امارات اور روس کے درمیان اب بھی اچھے تعلقات ہیں اور ولادی میر پوتن نے حال ہی میں مشرق وسطیٰ کے اس ملک کا دورہ کیا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا