انڈیا میں مسلم مخالف تقاریر میں ’خطرناک‘ اضافہ: ریسرچ گروپ

مسلم مخالف نفرت انگیز بیانات 2023 میں اگست سے نومبر تک عروج پر تھے یہ ایک ایسا عرصہ تھا جب انڈیا کی چار اہم ریاستوں میں انتخابات کے دوران سیاسی مہم اور ووٹنگ کے مراحل جاری تھے۔

16 اپریل 2022 کو نئی دہلی میں مسلمان مخالف تشدد کے خلاف مظاہرین پلے کارڈز لے کر مظاہرہ کر رہے ہیں (اے ایف پی/ سجاد حسین)

امریکہ میں قائم ایک ریسرچ گروپ کے نئے اعداد و شمار کے مطابق انڈیا میں گذشتہ سال مسلمانوں کے خلاف ہر روز اوسطاً دو نفرت انگیز تقاریر کے واقعات پیش آئے۔

واشنگٹن سے کام کرنے والے ’انڈیا ہیٹ لیب‘ (آئی ایچ ایل) نامی گروپ کی رواں ہفتے شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایسے واقعات زیادہ تر ان ریاستوں میں پیش آئے جہاں ہندو قوم پرست وزیر اعظم نریندر مودی کی دائیں بازو کی بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومتیں قائم ہیں۔

نفرت انگیز بیانات 2023 میں اگست سے نومبر تک عروج پر تھے یہ ایک ایسا عرصہ تھا جب انڈیا کی چار اہم ریاستوں میں انتخابات کے دوران سیاسی مہم اور ووٹنگ کے مراحل جاری تھے۔

انڈیا میں رواں سال ہونے والے عام  انتخابات میں چند ماہ ہی باقی ہیں جس میں نریندر مودی تیسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے خواہاں ہیں۔

انڈیا ہیٹ لیب نے 2023 میں مسلمانوں کو نشانہ بنانے والے 668 نفرت انگیز واقعات کو دستاویزی شکل دی۔

گروپ نے 2023 کی پہلی ششماہی میں 255 واقعات ریکارڈ کیے جب کہ سال کی دوسری ششماہی میں یہ تعداد بڑھ کر 413 واقعات تک پہنچ گئی جس میں 62 فیصد اضافہ ہوا۔

گروپ نے کہا کہ اس نے اپنے اعداد و شمار کے لیے اقوام متحدہ کی جانب سے تشکیل دی گئی ہیٹ سپیچ کی تعریف کا استعمال کیا جس میں مذہب، نسل، قومیت، نسل یا جنس سمیت صفات کی بنیاد پر کسی فرد یا گروہ کے لیے متعصبانہ یا امتیازی زبان کا استعمال کیا جا سکتا ہے۔

گروپ نے نوٹ کیا کہ ایک جامع ڈیٹا بنانے کے باوجود اعداد و شمار کا یہ سیٹ انڈیا میں نفرت انگیز واقعات کا مکمل احاطہ نہیں کرتے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نفرت انگیز تقریر کو تاریخی طور پر کمیونٹیز کے خلاف قتل و غارت اور نسل کشی سمیت شدید مظالم کے لیے ایک اہم وجہ سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق: ’یہ ایک گروپ کے خلاف نفرت پیدا کرنے، اپنے گروپ میں موثر طریقے سے یکجہتی کو پیدا کرنے اور دیگر گروپوں کو برا بنانے میں ایک اہم کردار ادا کرتا ہے جب کہ یہ خوف پیدا کرنے کے ایک ذریعے کے طور پر بھی کام کرتا ہے۔‘

آئی ایچ ایل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ’غیر انسانی سلوک کے ذریعے ہدف کا نشانہ بننے والے باہر کے گروپ کے لیے اجتماعی نفرت ان کے خلاف تشدد کو ایک جارحانہ خطرے کے طور پر پیش کر کے مؤثر طریقے سے قانونی حیثیت دے سکتی ہے۔‘

آئی ایچ ایل نے کہا کہ انڈیا میں نفرت انگیز تقاریر کے 668 واقعات میں سے 498  یا 75 فیصد ان ریاستوں، وفاقی اکائیوں اور قومی دارالحکومت دہلی کے کچھ علاقوں میں پیش آئے جہاں بی جے پی کی حکومتیں قائم ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ مغربی ریاست مہاراشٹرا سب سے زیادہ متاثر ہوئی جہاں ایسے تقریباً 118 یا 18 فیصد واقعات پیش آئے حالانکہ یہاں انڈیا کی صرف 9.3 فیصد آبادی رہتی ہے۔

نفرت انگیز تقریر کے تقریباً 104 واقعات صرف اتر پردیش میں پیش آئے جہاں تین کروڑ 80 لاکھ سے زیادہ مسلمان رہتے ہیں۔ وسطی انڈیا میں مدھیہ پردیش ریاست میں 65 واقعات ریکارڈ کیے گئے۔ دیگر چھوٹی ریاستوں جیسے ہریانہ اور اتراکھنڈ میں بھی نفرت انگیز تقریر کے واقعات دیکھنے میں آئے۔

آئی ایچ سی نے کہا کہ تقریباً 216 یا 32 فیصد نفرت انگیز واقعات انتہائی دائیں بازو کے ہندو مذہبی گروپ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) اور بجرنگ دل نے منظم کیے ہیں۔

دونوں گروہوں کا تعلق سنگھ پریوار سے ہے جو نیم فوجی تنظیم راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی قیادت میں مختلف ہندو قوم پرست تنظیموں کا ایک اجتماعی نام ہے۔ بی جے پی اس نیٹ ورک کے سیاسی ونگ کے طور پر کام کرتی ہے۔

آئی ایچ ایل کی رپورٹ پر نہ تو بی جے پی اور نہ ہی مودی حکومت نے براہ راست کوئی ردعمل ظاہر کیا ہے لیکن گروپ کی ویب سائٹ اور اس سے متعلقہ نفرت پر مبنی جرائم سے باخبر رہنے والی سائٹ ’ہندوتوا واچ‘ کو گذشتہ ماہ متنازع انفارمیشن ٹیکنالوجی ایکٹ 2000 کے تحت ایک حکومتی حکم نامے کے ذریعے بلاک کر دیا گیا تھا۔

حکومت نے اپنے اس اقدام کی وضاحت نہیں کی اور نہ یہ بتایا کہ آئی ایچ ایل پر قانون کے کن حصوں کی خلاف ورزی کا الزام ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دی انڈپینڈنٹ نے رپورٹ پر ردعمل کے لیے وی ایچ پی اور بی جے پی سے رابطہ کیا لیکن اسے بھی کوئی جواب نہیں ملا۔

آئی ایچ ایل نے اس حوالے سے کہا کہ ’بی جے پی خود تقریباً 50 نفرت انگیز تقاریر کے پروگراموں کے انعقاد کے لیے ذمہ دار تھی جن میں اکثر انتخابی ریلیوں کے تناظر میں کی گئیں۔‘

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ انڈیا میں نئے ہندو قوم پرست گروہوں اور نفرت انگیز تقریر میں ملوث عناصر تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کے کل 668 واقعات میں سے 63 فیصد نے اسلامو فوبک سازشی نظریات کا حوالہ دیا۔

ان نظریات میں ’لو جہاد‘ سمیت بے بنیاد الزامات کا ایک سلسلہ شامل ہے۔ ’لو جہاد‘ بے بنیاد سازشی نظریہ ہے جس میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان مرد ہندو خواتین کو شادی کے ذریعے اسلام قبول کرنے پر آمادہ کر رہے ہیں۔

اسی طرح ’لینڈ جہاد‘ کے ذریعے مسلمانوں پر مذہبی عمارتوں کی تعمیر یا نماز کے انعقاد کے ذریعے عوامی زمینوں پر قبضہ کرنے کا الزام لگایا جاتا ہے، ’حلال جہاد‘ کو اسلامی حلال طریقوں کے ذریعے اقتصادی طور پر غیر مسلم دکانداروں کو دور کرنے کی سازش کے طور پر دیکھا جاتا ہے اور ’آبادی جہاد‘ میں دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمان جان بوجھ کر اپنی شرح پیدائش میں اضافہ کر رہے ہیں جس کا مقصد دوسری کمیونٹیز کی آبادی کو پیچھے چھوڑنا اور بالآخر پورے ملک پر غلبہ حاصل کرنا ہے۔

رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ ’صرف پانچ سپیکرز 146 نفرت انگیز تقریر کے واقعات یا آئی ایچ ایل کی جانب سے دستاویز کردہ تمام نفرت انگیز تقریر کے واقعات میں سے 22 فیصد کے ذمہ دار تھے۔‘

رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ نفرت انگیز تقاریر کے تقریباً 100 واقعات میں نمایاں طور پر بی جے پی سے وابستہ رہنما ہی شامل تھے۔

2023 میں نفرت انگیز تقاریر کے واقعات کے تجزیے کے مطابق 169 واقعات میں ایسی تقاریر شامل تھیں جن میں مسلمانوں کی عبادت گاہوں کو نشانہ بنانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ سات اکتوبر اور 31 دسمبر 2023 کے درمیان جب حماس نے اسرائیل کے خلاف کارروائی کی تھی تو 193 میں سے 41 واقعات میں اسے انڈین مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دینے کے لیے استعمال کیا گیا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا