پاکستان کی صدارتی تاریخ، ایک اجمالی جائزہ

1973کے بعد صدور کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 50 برسوں میں صرف تین صدور ہی اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کر سکے۔

قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار نے ایک دم سے اس رسمی اور نمائشی طرز کے عہدے کو طاقت ور بنایا (کولاج)

پاکستان کے پارلیمانی نظام حکومت میں پانچ صدور ایسے ہیں جو ملکی تاریخ کے سب سے زیادہ با اختیار صدور کے طور پر جانے جاتے ہیں۔

73 کے آئین میں ترامیم کے بعد صدر مملکت کو اسمبلی تحلیل کرنے کا بے لگام اختیار مل گیا لیکن اس اختیار کو صرف تین صدور نے استعمال کیا اور ایک صدر مملکت نے تو دو مرتبہ اس اختیار کے ذریعے قومی اسمبلی کو چلتا کیا۔ ان صدور میں جنرل ضیا الحق اور فاروق لغاری نے ایک مرتبہ جب کہ صدر غلام اسحاق خان نے دو مرتبہ اپنے آئینی اختیار کو استعمال کیا۔

قومی اسمبلی کو تحلیل کرنے کے اختیار نے ایک دم سے اس رسمی اور نمائشی طرز کے عہدے کو طاقت ور بنایا۔ پہلے اس اختیار کو آٹھویں ترمیم کے ذریعے آئین کا حصہ بنایا گیا لیکن نواز حکومت اور بے نظیر بھٹو کی سربراہی میں اپوزیشن نے 1997 میں ایک اور ترمیم کے ذریعے اس صدارتی اختیار کو ختم کر دیا۔ یہ اختیار 17 ویں ترمیم کے ذریعے دوبارہ آئین میں شامل کیا گیا لیکن پھر اسے 18 ویں کے ذریعے آئین سے خارج کر دیا گیا۔

قیام پاکستان کے بعد پہلے صدر میجر جنرل اسکندر مرزا تھے۔ 1956 کا آئین نافذ ہوا تو اسکندر مزرا کے عہدے کا نام تبدیل ہو گیا۔ وہ گورنر جنرل سے صدر پاکستان بن گئے لیکن 1956 کے آئین کی منسوخی کے ساتھ ان کا عہدہ بھی ختم ہو گیا۔ جنرل ایوب خان ملک کے دوسرے صدر بنے اور اُن کا مقابلہ فاطمہ جناح سے ہوا۔

1973 کے بعد صدور کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو 50 برسوں میں صرف تین صدور ہی اپنے عہدے کی آئینی مدت مکمل کر سکے۔ پیپلز پارٹی نے دو مرتبہ صدارتی انتخاب میں حصہ نہیں لیا اس کے باوجود سب سے زیادہ صدور پیپلز پارٹی کی حمایت سے کامیاب ہوئے۔ صدارتی انتخابات میں سیاست دانوں کے علاوہ اعلیٰ عدلیہ کے تین سابق ججز، دو چیئرمین سینٹ اور ایک جرنیل نے حصہ لیا۔

ذوالفقار علی بھٹو ملک کے واحد وزیر اعظم ہیں جو وزارت عظمیٰ پر فائز ہونے سے پہلے ملک کے صدر رہے۔ 1973 کے آئین کے نفاذ کے بعد برسراقتدار پیپلز پارٹی نے صدر کے عہدے کے انتخاب کے لیے پہلے سپیکر قومی اسمبلی فضل الہی کو اپنا امیدوار نامزد کیا اور ان کے مقابلہ اپوزیشن نے اے این پی امیر زادہ خان کو میدان میں اتارا۔

نتائج کے مطابق فضل الہی 1973 آئین کے تحت پہلے صدر چنے گئے۔ 73 کے آئین کے تحت صدر مملکت کا عہدہ پروقار اور وفاق کی علامت تو ضرور تھا لیکن یہ محض ایک نمائشی عہدے کے زمرے آتا تھا۔

پانچ جولائی 1977 کو بھٹو حکومت ختم ہو گئی لیکن صدر فضل الہی 16 ستمبر 1978 تک اس پر فائز رہے اور اس کے بعد جنرل ضیاالحق نے یہ عہدہ سنبھال لیا۔ 19 دسمبر 1984 کو ایک ریفرنڈم ہوا اور جنرل ضیاالحق دوبارہ صدر بن گئے لیکن اپنے عہدے کی معیاد مکمل ہونے سے پہلے ہی فضائی حادثے میں جان بحق ہوگئے۔

نئے صدر کے چناؤ کے لیے سینیٹ چیئرمین اور قائم مقام صدر غلام اسحاق خان بھی امیدوار کے طور پر سامنے آئے اور اُس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی نے غلام اسحاق خان کی حمایت کی اور ان کے مدمقابل اپوزیشن کے امیدوار نوابزادہ نصر اللہ خان تھے لیکن کامیابی غلام اسحاق خان کے حصے میں آئی۔

غلام اسحاق خان کے نواز شریف سے اختلافات کی وجہ سے صدر مملکت اور وزیر اعظم دونون کو گھر جانا پڑا اور اس طرح غلام اسحاق خان بھی اپنے عہدے کی معیاد مکمل نہ کر سکے۔

عبوری مدت کے لیے قائم مقام صدر کا منصب پھر چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے سنبھالا اور اپنے پیش رو کی طرح صدارتی انتخاب لڑا لیکن اس مرتبہ حکومت کے بجائے قائم مقام صدر کو مسلم لیگ ن پر مشتمل اپوزیشن نے سپورٹ کیا۔

وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اپنے قابل اعتماد ساتھی سردار فاروق احمد خان لغاری کو صدارتی انتخاب کے لیے نامزد کیا۔ فاروق لغاری اس مقابلے میں کامیاب ہو گئے۔ صدر فاروق لغاری نے بے نظیر بھٹو کی اسمبلی کو تحلیل کر دیا اور بعد میں نواز شریف وزیر اعظم بنے تو سردار فاروق لغاری نے وزیر اعظم سے اختلافات کی بیناد پر اپنے عہدے سے استعفی دے دیا اور مدت مکمل کیے بغیر عہدے سے الگ ہو گئے۔

نئے صدارتی انتخاب کے لیے مسلم لیگ ن نے سابق چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ اور سینیٹر جسٹس رفیق تارڑ کا انتخاب کیا اور ان کے مقابلے میں پیپلز پارٹی کی طرف سے آفتاب شعبان میرانی امیدوار کے طور پر سامنے آئے۔

یہ بھی ایک اتفاق ہے کہ رفیق تارڑ کے کاغذات نامزدگی کو اس وقت الیکشن کمشنر نے عدلیہ کے بارے میں توہین آمیز انٹرویو دینے پر مسترد کر دیا تاہم لاہور ہائی کورٹ نے رفیق تارڑ کی درخواست پر اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا اور رفیق تارڑ صدر بن گئے۔ اپنے پیش رو کی طرح رفیق تارڑ بھی اپنے عہدے کی معیاد پوری کیے بغیر عہدے سے الگ ہو گئے اور ان کی جگہ جنرل پرویز مشرف صدر بن گئے۔

2007 میں صدر جنرل پرویز مشرف نے دوسری مدت کے لیے صدارتی انتخاب میں حصہ لیا تو پہلی مرتبہ دو امیدوار ان کے مدمقابل آئے۔ ایک پیپلز پارٹی کے مخدوم امین فہیم اور دوسرے وکلا کی طرف سے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین تھے۔

انتخابات سے عین پہلے مخدوم امین فہیم صدارتی امیدوار کی حیثیت سے دستبردار ہو گئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

صدر جنرل پرویز مشرف اپنے مدمقابل امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کے مقابلے میں کامیاب ہو گئے لیکن وہ بھی اپنے عہدے کی مدت مکمل نہ کر سکے اور معیاد ختم ہونے سے پہلے ہی مستعفی ہو گئے۔

پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین کے برسر اقتدار ہونے کی وجہ سے آصف علی زرداری نے صدارتی انتخاب لڑنے کا اعلان کیا اور ان کے مقابلے میں اپوزیشن یعنی مسلم لیگ ن کی طرف سے سابق چیف جسٹس پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سعید الزماں صدیقی امیدوار تھے۔ آصف علی زرداری پانچ سال کے لیے صدر منتخب ہوئے بلکہ 22 برس کے بعد پہلے صدر مملکت بن چکے ہیں جنہوں نے اپنے عہدے کی آئینی معیاد مکمل کی۔

2013 کے صدارتی انتخابات میں مسلم لیگ ن کے نامزد امیدوار ممنون حسین صدر منتخب ہوئے۔ یہ دوسرا موقع تھا جب مسلم لیگ ن کے حمایت یافتہ سیاست دان صدر مملکت منتخب ہوئے۔

ممنون حسین کے مدمقابل جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین احمد تھے۔ پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے انتجابات کا بائیکاٹ کیا اور ان کے صدارتی امیدوار رضا ربانی نے احتجاجاً اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیے۔ یہ دوسرا موقع تھا جب پیپلز پارٹی پارلیمنٹیرین نے صدارتی انتخابات سے دوری اختیار کی۔

2018 میں تحریک انصاف کی حکومت قائم ہوئی تو عارف علوی صدر منتخب ہوئے۔ ان کے مقابلے میں اعتراز احسن اور مولانا فضل الرحمٰن امیدوار تھے۔ عارف علوی کے عہدے کی معیاد ستمبر میں ختم ہو گئی تھی لیکن اسمبلیاں تحلیل ہونے کی وجہ سے انتخابات نہیں ہو سکے اور اس طرح لگ بھگ چھ ماہ وہ اسی عہدے پر رہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ