سندھ کے احتجاج پر وفاق سے چیئرمین ارسا کی تعیناتی منسوخ

سندھ حکومت نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی تعیناتی کو فوری طور واپس لیا جائے۔

دریائے ستلج کا ایک منظر (فائل فوٹو محمد نعمان ظفر/ وکی میڈیا کامنز)

وزیر اعظم شہباز شریف نے واٹر اینڈ پاور ڈویلپمنٹ اتھارٹی (واپڈا) کے سابق چیئرمین اور بائیسویں گریڈ کے ریٹائرڈ افسر ظفر محمود کو بطور چیئرمین انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) تعینات کرنے کے خلاف سندھ حکومت کے احتجاج پر تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا ہے۔

سندھ حکومت نے احتجاج کرتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ان کی تعیناتی کو فوری طور واپس لیا جائے۔

وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ’ارسا چیئرمین کی تعیناتی سے ارسا کی ایک آزاد اتھارٹی کی حیثیت ختم ہوجائے گی جس پر ہمیں شدید خدشات ہیں۔‘

جمعرات کو سینیٹ کے ضمنی انتخابات کے لیے اپنا ووٹ کاسٹ کرنے کے بعد سندھ اسمبلی میں ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے سید مراد علی شاہ نے کہا کہ ’پانی کے معاہدے کے تحت ارسا ایکٹ بنا تھا اور اس ایکٹ کے تحت ارسا کو خود مختار حیثیت حاصل تھی، جس کا مقصد تھا کہ ارسا ایک خود مختار ادارہ ہو اور اس پر وفاق کا کوئی اثر نہ ہو۔

مراد علی شاہ کے مطابق: ’نگراں حکومت کے دوران ایک متنازع آرڈیننس لایا گیا جس کے تحت ارسا ایکٹ میں کچھ تبدیلی کی گئی اور ان تبدیلیوں میں ایک یہ بھی تھی کہ ارسا کا چیئرمن وفاق سے ایک نمائندہ ہوگا یہ چھٹا ممبر آ گیا اور وہ چیئرمن ارسا ہوا کرے گا۔‘

پاکستان میں دریا کے پانی کی صوبوں کے درمیاں منصافانہ تقسیم کے لیے بنائے ادارے ارسا میں چاروں صوبوں کا ایک ایک ممبر اور ایک رکن وفاق کا ہوتا ہے۔

ان پانچ ممبران میں باری باری چیئرمین بنایا جاتا تھا۔ ارسا کے سابق چیئرمین عبدالحمید مینگل کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ ارسا ایکٹ کے تحت نیا چیئرمین خیبر پختونخوا سے چنا جانا تھا۔

مگر اس نئے قانون کے تحت اب ارسا کے پانچ کے بجائے چھ ممبر ہوں گے جن میں سے دو ممبر وفاق کے ہوں گے۔

گذشتہ روز سندھ کابینہ میں ارسا معاملے پر بحث کے بعد کابینہ نے متفقہ فیصلہ کیا کہ اس معاملے پر احتجاج کیا جائے گا۔

مراد علی شاہ کے مطابق: ’ارسا ایکٹ میں ترمیم کے لیے آرڈیننس نگراں حکومت کی جانب سے لایا گیا۔ جب قومی اسمبلی موجود ہی نہیں تھی اور اس طرح کا ایکٹ یا آرڈیننس کیسے لایا گیا؟۔ موجودہ وفاقی حکومت نے اس آرڈینینس پر عمل درآمد شروع کر دیا۔

’وفاقی حکومت کو چاہیے کہ اس آرڈیننس کو قومی اسمبلی اور سینیٹ میں پیش کیا جائے۔ ایکٹ پاس ہوتا تو اس پر ضرور پاکستان پیپلز پارٹی کے ممبران اپنی رائے کا اظہار کرتے اور مجھے پورا یقین ہے یہ ایکٹ اسمبلی سے پاس نہیں ہوتا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ایک تو وفاق کا ایک اور رکن ارسا میں لانا ہمیں منظور نہیں۔ دوسرا شخص کو لایا گیا ہے وہ خود متنازعہ ہے۔ انہوں نے کالا باغ ڈیم کے حق میں کتاب لکھی ہے۔ ہمیں اس شخص پر بھی اعتراض ہے۔‘

واپڈا کے سابق چیئرمین ظفر محمود نے ’پاکستان کے آبی مسائل کالا باغ ڈیم حقیقت کیا، فسانہ کیا‘ نامی کتاب لکھ کر متنازعہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے حق میں دلائل دیے ہیں۔

مراد علی شاہ نے کہا ہم اس بات کو مانتے ہی نہیں کہ ارسا کو وفاق کے کنٹرول میں لایا جائے۔ پہلے پانی کی تقسیم واپڈا کیا کرتی تھی اور اس کے بعد پانی کی تقسیم کو واپڈا اور وفاق کے کنٹرول سے نکالنے کے لیے ارسا بنائی گئی۔

دریں اثنا وزیراعلی ہاؤس سے جاری بیان میں کہا گیا کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے وزیراعظم شہباز شریف کو بذریعہ فون ارسا چیئرمین کی تقرری پر بات چیت کی۔

بیان کے مطابق وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ ارسا چیئرمین کی تعیناتی ارسا کے پانچ ممبران میں سے ہوا کرتی ہے باہر سے نہیں۔

وزیراعلیٰ سندھ کو وزیراعظم شہباز شریف نے یقین دلایا کہ ارسا چیئرمین کا فیصلہ صوبوں کی مرضی سے ہوگا۔

وزیراعلیٰ سندھ نے ارسا ایکٹ میں ترمیم کے حوالے سے بھی تبادلہ خیال کیا۔

جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف نے وزیراعلیٰ مراد علی شاہ کو یقین دلایا کہ ارسا چیئرمین کی تعیناتی اور ایکٹ میں ترمیم صوبوں کی مشاورت سے کی جائے گی۔ جس کے بعد وزیراعظم نے ارسا چیئرمین کی تعیناتی کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا۔

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان