نتن یاہو کا اکثریت حاصل کرنے کا خواب ادھورا؟

ووٹنگ کے بعد ابتدائی نتائج اور ایگزٹ پول ظاہر ہوتا ہے کہ نتن یاہو کی دائیں بازو کا اتحاد حکومت سازی کے لیے درکار 61 نشستیں حاصل نہیں کر پائے گا۔

نتن یاہو نے پولنگ ختم ہونے کے بعد صیہونی حکومت قائم کرنے کا عزم ظاہر کیا (اے ایف پی)

اسرائیل کے غیر معمولی انتخابات کے بعد ابتدائی نتائج اور ایگزٹ پول کے مطابق اسرائیل میں منگل کو ہونے والے انتخابات میں طویل عرصے تک ملک کے وزیر اعظم رہنے والے بن یامین نتن یاہو اپنے سخت گیر دائیں بازو کی مدد سے پارلیمانی اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

ان انتخابات کو نتن یاہو کی سیاسی بقا کی جنگ قرار دیا جا رہا تھا جو پانچویں مرتبہ وزیر اعظم بننے کی کوشش کر رہے تھے۔

یہ بظاہر نتن یاہو کے لیے بڑا صدمہ ہے کیوں کہ وہ اپنے خلاف مجرمانہ تفتیش کا مقابلہ سیاسی میدان میں کامیابی سے حاصل کرنا چاہتے تھے۔

ووٹنگ ختم ہونے کے بعد اسرائیل کے تین بڑے ٹیلی ویژن چینلوں کی جانب سے پیش کردہ رائے عامہ کے جائزوں سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا سیاسی مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔

ملک کے الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کردہ ایک تہائی جزوی نتائج کے مطابق نتن یاہو کی لیکود جماعت اور ان کے اتحادی واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

لیکن اسرائیلی ٹی وی چینلز 12ٹ 13 اور 1 تمام نے ان کے اہم حریف بینی گانٹز کی بلیو اینڈ وائٹ پارٹی کو نتائج میں آگے بتا رہے ہیں۔ کسی پول میں انہیں پارلیمان میں اکثریت حاصل کرتے نہیں دکھایا گیا۔

اب تک کے تنائج سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین جماعتوں کے درمیان متحدہ حکومت شاید ممکن ہو سکے۔ لیکن ابھی یہ واضح نہیں کہ نتن یاہو کا اس میں کیا کردار ہو گا۔

اسرائیلی ایگزٹ پول اکثر غلط ثابت ہوئے ہیں۔ حتمی سرکاری تنائج بدھ کو جاری کیے جائیں گے۔

تل ابیب میں اپنے آدھے خالی انتخابی دفتر میں نتین یاہو نے شکست تسلیم کرنے یا کامیابی کا اعلان کچھ نہیں کیا۔ لیکن انہوں نے ’صیہونی‘ حکومت بنانے کا وعدہ کیا۔

انہوں نے اعلان کیا تھا کہ اگر وہ منتخب ہوئے تو وادی اردن کو اسرائیلی ریاست کا حصہ بنائیں گے۔ 

پیر کو نتن یاہو اور ان کے بڑے حریف بینی گینٹز نے کانٹے دار ماحول میں اپنے حامیوں کی توجہ حاصل کرنے کی کوشش کی۔

یہ اسرائیل میں گذشتہ پانچ ماہ میں ہونے والے دوسرے انتخابات ہیں۔ وزیراعظم نتن یاہو کو اپنے سیاسی کیریئر کی سب سے بڑی شکست اُس وقت ہوئی جب وہ اپریل میں انتخابات کے بعد اتحادی حکومت بنانے میں ناکام رہے۔

سابق وزیر دفاع ایودگور لیبرمین وزیراعظم نتن یاہو کے دست راست رہ چکے ہیں لیکن اب وہ ان کے حریف ہیں۔ ان کا کردار بادشاہ گر جیسا ہے۔ وہ ’اسرائیل کو ایک بار پھر معمول کا ملک‘بنانے کے عزم پر مبنی مہم چلا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سیکولرازم کے بھرپور حامی لیبرمین کے مطابق یہ نعرہ اسرائیل کی سیاست پر انتہائی رجعت پسند یہودی سیاسی جماعتوں کے اثرورسوخ کی طرف اشارہ ہے۔

نتن یاہو حالیہ چند برسوں میں اپنے سیاسی گڑھ میں ٹرن آؤٹ بڑھانے کی کوششوں میں مصروف رہے ہیں۔ اس مقصد کے لیے انہوں نے اپنی شکست کو ایک انتباہ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کئی ایسے اعلان کیے جن کا دائیں بازو کے قوم پرستوں نے خیرمقدم کیا۔

اتوار کی رات وہ اس حد تک گئے کہ انہوں نے اپنی دائیں بازو کی لیکوڈ پارٹی کی آخری انتخابی ریلی میں جانے کا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ریلی میں جانے کی بجائے’ہنگامی مشاورت‘میں مصروف ہیں۔ انہوں نے خبردار کیا کہ تھوڑی تعداد میں ووٹ پڑنے کا نتیجہ ان کی شکست کی شکل میں سامنے آ سکتا ہے۔

اسرائیلی عوام پر استعمال ہونے والا یہ جانا پہچانا حربہ ہے جس سے نتن یاہو ماضی میں کئی بار کام لے چکے ہیں۔ اگرچہ اس بار خطرہ زیادہ ہو سکتا ہے کیونکہ پانچ ماہ میں دوسری بار انتخابات ہو رہے ہیں اور ووٹر تھکے ہوئے ہیں۔ ان کی یہ تھکاوٹ اہم کردار ادا کر سکتی ہے۔

نتن ہاہو نے اپنی انتخابی مہم کے دوسرے موضوعات کو بھی چھیڑا ہے۔ انہوں نے خود کو اسرائیل کے لیے ناگزیر رہنما کے طور پر پیش کیا ہے۔ بڑے سیاسی حریفوں کی اسرائیل کی سلامتی اور معاشی ترقی کے لیے کوششوں کے باوجود وہ انہیں’کمزور‘اور’بائیں بازو‘کا کہہ کر مسترد کرتے ہیں۔

ان کا کہنا ہے وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ مل کر وسیع تر غرب اردن کی بستیوں پر اسرائیلی حاکمیت نافذ کریں گے۔

اسرائیلی فوج کے سابق سربراہ بینی گینٹز نے خود کو نتن یاہو کے قابل احترام متبادل کے طور پر پیش کرکے انتخابی مہم چلائی۔ نتن یاہو پر آنے والے ہفتوں میں بدعنوانی کی فرد جرم عائد ہونے کا امکان ہے۔

بینی گینٹز کئی بار کہہ چکے ہیں نتن یاہو انتہائی دائیں بازو کی نظریات رکھنے والی جماعتوں سے مل کر اتحاد بنانے کے لیے تیار ہیں جس سے انہیں پارلیمنٹ میں رہتے ہوئے اپنے خلاف قانونی کارروائی سے استثنیٰ مل جائے گا۔

گذشتہ انتخابات کے بعد نیتن یاہو اتحادی جماعتوں کے ساتھ حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے لیکن وہ اپنے سابق وزیر دفاع لیبرمین کی حمایت کے حصول میں ناکام رہے تھے، جس کے بعد پارلیمنٹ تحلیل اور دوبارہ انتخابات کا اعلان سامنے آیا۔

نیتن یاہو کی قدامت پسند اور لیبرمین کی سیکولر جماعت کے درمیان اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ لیبرمین چاہتے تھے جب تک نیتن یاہو دینی درس گاہوں کے طلبا کے فوج میں خدمات انجام دینے پر راضی نہیں ہو جاتے وہ حکومتی اتحاد کا حصّہ نہیں بنیں گے۔

 اسرائیل کے 21ویں عام انتخابات میں 63 لاکھ سے زائد اسرائیلی ووٹ ڈالنے کے اہل ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا