اسرائیلی عدلیہ کی سیاسی بیلنس شیٹ

اسرائیلی سپریم کورٹ کے’مینڈیٹ‘ کے تحفظ میں ہلکان اسرائیلی شہریوں کو خبر ہو کہ ان ہی پنچوں پر متکمن اسرائیلی عدلیہ میں شامل جسٹس منیر اینڈ کمپنی فلسطینیوں کے خلاف تشدد کے استعمال کو جائز قرار دینے میں شرم محسوس نہیں کرتے تھے۔

24 جولائی کی اس تصویر میں اسرائیلی سکیورٹی فورسز مقبوضہ بیت المقدس میں نتن یاہو حکومت کی منصوبہ بند عدالتی تبدیلی کے خلاف ایک مہینے سے جاری مظاہروں کے دوران کنیسٹ کے داخلی دروازے کو روکنے والے ایک شخص کو ہٹا رہے ہیں (حازم بدر / اے ایف پی)

اسرائیلی پارلیمنٹ (کنیسٹ) نے گذشتہ ہفتے سپریم کورٹ کے اختیارات میں کمی سے متعلق ایک متنازع قانون کی منظوری دی تھی، جس کے بعد تل ابیب کی کابلان سٹریٹ میں ہزاروں اسرائیلی شہریوں کے مظاہروں کا سلسلہ 30ویں ہفتے میں داخل ہو گیا ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

ملکی تاریخ کے بھرپور اور لمبی مدت تک جاری رہنے والے مظاہرے بھی نتن یاہو کی دائیں بازو کی انتہائی انتہا پسند قومی حکومت کو مذکورہ قانون میں تبدیلی سے نہ روک سکے۔

سیاسی پنڈتوں کا خیال ہے کہ اسرائیل کو اب داخلی تقسیم سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اس قانون کے بموجب سپریم کورٹ کے جج سیاسی حکومت کے کسی فیصلے کو عوامی مفاد میں نامناسب سمجھ کر اس پر نظر ثانی کا حکم نہیں دے سکیں گے۔

کنیسٹ سے منظور ہونے والے قانون کی مخالفت کرنے والوں کا مؤقف ہے کہ اس کی آڑ میں حکومت اور بالخصوص وزرا کو من مانی کا موقع جائے گا۔ وہ جو چاہیں کرتے رہیں گے۔ بعض حلقوں کی جانب سے یہ اندیشہ بھی ظاہر کیا گیا ہے کہ اس قانون کو ڈھال بنا کر نتن یاہو خود کو استغاثہ کی جانب سے اپنے خلاف بدعنوانی کے مقدمات کے جال سے بآسانی نکلوا سکتے ہیں۔  

عدلیہ اوورآل قانون منظوری کی حمایت کرنے والے سمجھتے ہیں کہ اس سے عدلیہ کی سیاست میں مداخلت کو روکا جا سکے گا۔ ملک میں جاری احتجاج مسلسل اور مظاہروں کو دنیا کے سامنے صہیونی ریاست کے دمکتے جمہوری چہرے کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہے کہ عدلیہ کی اوور ہالنگ کے ان منصوبوں کا فلسطینیوں پر کیا اثر پڑے گا، جو سات دہائیوں سے اسرائیلی جکڑ بندیوں کا شکار چلے آ رہے ہیں؟

اسرائیل آمریت کی راہ پر

اس میں دو رائے نہیں کہ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیل انتہائی بری آمریت ثابت ہوا ہے۔ اسرائیلی عدلیہ نے کبھی بھی فلسطینیوں کے حقوق کا خیال نہیں رکھا۔ صہیونی قانون میں بیان کردہ چیک اینڈ بیلنس کو نافذ کرانے میں بھی اسرائیلی عدلیہ آج تک ناکام چلی آئی ہے۔

سپریم کورٹ کے مینڈیٹ کے تحفظ کی چاہ میں اسرائیلی عوام نے اپنے دن کا چین اور راتوں کی نیندیں کابلان سٹریٹ میں حرام کر رکھی ہیں، اسی عدلیہ کے پنچوں پر متکمن ’اسرائیلی جسٹس منیر اینڈ کمپنی‘ فلسطینیوں کے خلاف تشدد کو جائز قرار دے رہے ہوتے ہیں۔

ان کے قلم کی سیاہی سے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری کو سند جواز فراہم کیا جاتا ہے۔ اسرائیلی قضاۃ نے فلسطینیوں کی چھینی گئی اراضی پر یہودی بستیوں کی تعمیر کو جائز قرار دیا۔

نیز غرب اردن میں نسلی امتیار کی مظہر طویل دیوار کی تعمیر جیسے اقدامات کو قانونی جواز فراہم کیا۔ فلسطینیوں کے حوالے سے اسرائیلی عدلیہ کا کردار انتہائی شرمناک آمریت کا قابل نفرت نمونہ پیش کرتا ہے۔

فلسطینیوں پر اثرات

اسرائیلی عدلیہ نے ہمیشہ سیاسی مصلحتوں کا شکار ہو کر فیصلے کیے۔ اسرائیلی عدلیہ نے ان سینکڑوں فلسطینیوں کے مقدمات سننے سے انکار کیا، جس کی اسرائیلی حکومت کو سیاسی قیمت ادا کرنا پڑ سکتی تھی۔ اسی لئے دنیا بھر کی مذمت کے باوجود اسرائیلی سپریم کورٹ نے فلسطینیوں کے مکانات کی مسماری رکوانے سے متعلق کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا۔

عدلیہ نے فلسطینیوں کو کنیسٹ کے الیکشن میں حصہ لینے کی اجازت ان کے جمہوری حقوق سمجھ کر نہیں دلوائی بلکہ وہ دنیا کے سامنے اسرائیلی جمہوریت کا ماڈل پیش کرنا چاہتے تھے، ورنہ اسرائیلی پارلیمنٹ ایک معبد کا منظر پیش کرتی جہاں صرف یہودی مذہبی رسومات ادا کرنے آتے۔

اسرائیلی عدلیہ کے پر کاٹنے سے متعلق قانون کی کنیسٹ سے منظوری کے بعد نتن یاہو نے اپنے ایک نشری خطاب میں اپوزیشن کو سرکاری ٹی وی کے ذریعے ’کمپرومائز‘ کی نوید سنائی ہے۔

اسرائیلی وزیر اعظم نتن یاہو نے قانون منظور ہونے کے بعد حزب اختلاف کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’آپ مظاہرے کریں اور احتجاج کریں، تاہم آپ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ آپ نے آگے کیا کرنا ہے، آئیے! اس پر بیٹھ کر بات کر لیتے ہیں۔ اس ایشو پر حکومت کے ساتھ معاہدہ کر لیں۔ میں باہمی احترام کے جذبے کے تحت آپ کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھاتا ہوں۔‘

اپوزیشن لیڈر یائر لپیڈ نے وزیراعظم کی پیش کش کے جواب میں کہا کہ ’اس حکومت سے جمہوریت کے تحفظ کی خاطر کوئی معاہدہ کرنا ناممکن ہے۔ یہ ملک کے حصے بخرے کرنے کے درپے ہیں۔ انہیں اس ملک (اسرائیل) کی سلامتی، جمہوریت، بین الاقوامی تعلقات اور عوامی اتحاد سے کوئی سروکار نہیں۔ ایسے لوگوں سے بات کرنا ناممکنات میں سے ہے۔‘

اصلاحات کا مکمل پیکچ

حال ہی میں دل کی بے ترتیب دھڑکن کا ربط بحال رکھنے کے لیے لگوائے گئے پیس میکر کی سلو پرفارمنس کی وجہ سے اسرائیلی وزیراعظم شاید یہ بات بتانا بھول گئے کہ منظور شدہ قانون دراصل ان کے اس طویل المیعاد منصوبے کا صرف ایک حصہ ہے، ابھی اس کے تین مزید مراحل یا مسودے منظر عام پر نہیں لائے گئے۔

پہلے منظور شدہ قانون کے تحت پارلیمان کے ذریعے کی جانے والی قانون سازی پر سپریم کورٹ کے نظر ثانی کے اختیار کا خاتمہ کر دیا گیا ہے، جس کے بعد پارلیمنٹ کو ججوں کی مرضی کے بغیر کوئی بھی قانون بنانے کا اختیار حاصل ہو جائے گا (مثلاً فلسطینی قیدیوں کو سزائے موت دینے کا قانون، صدارتی اور دیگر اختیارات سے متعلق قانون سازی وغیرہ۔)

دوسری ترمیم کی آڑ میں اتحادی حکومت جوڈیشل کونسل کو بائی پاس کر کے ججوں کی تقرری کا اختیار خود اپنے ہاتھ لینا چاہتی ہے۔ تیسری اہم ترمیم کے ذریعے انتظامی معاملات میں سپریم کورٹ کی ’مداخلت‘ کے آگے بند باندھنا مقصود ہے۔

عدلیہ میں اصلاحات کے نام پر چوتھی ترمیم کے ذریعے وزارتوں میں سیاسی بنیادوں پر قانونی مشیران کی تقرری سے متعلق حکومت سپریم کورٹ کو باز پرس کے حق سے بھی محروم کرنا چاہتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دائیں بازو کی نمائندہ انتہائی انتہا پسند حکومت امسال جنوری سے اس پیکج کی منظوری کے لیے پر تول رہی تھی، لیکن اسرائیل کی تاریخ کی سب سے بڑی عوامی احتجاجی تحریک میں شدت آنے کی وجہ سے وہ ایسا کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی۔

قانونی اصلاحات کے پیکج کی جزوی منظوری سے فلسطینیوں پر ظلم کے نئے پہاڑ ٹوٹیں گے۔ اسرائیلی عدلیہ کبھی بھی گرین لائن ایریا اور غرب اردن میں بسنے والے فلسطینیوں کے حقوق کی محافظ نہیں بن سکتی۔

اسرائیل نے فلسطینیوں کی انتظامی حراست جیسے غیر انسانی اور عالمی قوانین کی خلاف ورزی پر مبنی اقدامات کو ہمیشہ تحفظ دیا۔ اسرائیلی عدالت کو غرب اردن میں اسرائیلی فوجی ناکوں کا جال دکھائی دیتا ہے نہ وہ اسے  فلسطینیوں کی آزاد نقل وحرکت کے بنیادی حق خلاف سمجھتے ہیں۔

گرین لائن ایریا میں بسنے والے عرب فلسطینیوں (جو اسرائیلی شہری ہیں) کے حقوق سے متعلق بھی اسرائیلی عدالتوں نے گذشتہ دس برسوں میں کوئی فیصلہ صادر نہیں کیا۔ اس سارے کھیل میں فلسطینی انتہائی کمزور فریق ہیں، ان کی کنیسٹ میں نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس قانون کی منظوری کے بعد اسرائیلی حکومت فلسطینیوں کو کچلنے کے لئے من چاہے قوانین بنانے میں آزاد ہو گی، اس کے سر سے عدالتی نظر ثانی کی تلوار بھی ہٹ چکی ہے۔

متنازع اسرائیلی قانون کی منظوری کے بعد فلسطینیوں کے لیے امید کی ایک کرن ضرور روشن ہوئی ہے۔ فلسطینی اب بین الاقوامی فوجداری قانونی فورمز سمیت بین الاقوامی برادری کو مخاطب کر سکتے ہیں۔

بین الاقوامی فورمز پر مسئلہ فلسطین کے حق میں آواز اٹھانے اور فلسطینیوں سے اپنے حقوق کی بحالی کی خاطر قانونی چارہ جوئی کا حق تل ابیب یہ کہہ کر چھینتا چلا آیا ہے کہ اسرائیلی عدلیہ تو آزاد ہے، فلسطینی وہاں داد رسی کے لیے اپنی نالش پیش کریں۔

اب نتن یاہو حکومت خود عدلیہ کی غیر جابنداری پر تین حرف بھیج کر اپنے اختیارات اور مفادات کے تحفظ کو یقینی بنانے والا نیا قانون منظور کروا چکی ہے، ایسے میں اسے فلسطینیوں کو اپنا مقدمہ آئی سی سی اور دوسرے عالمی ٹرائبیونلز میں داد رسی کی خاطر لے جانے سے روکنے کا اخلاقی وقانونی جواز ختم ہو گیا ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر