فلسطینی آشاؤں پر اسرائیلی شب خون

فلسطینی اتھارٹی بظاہر جن علاقوں کا انتظام وانصرام چلاتی ہے، وہ دراصل تل ابیب ہی کی خدمت بجا لا رہی ہوتی ہے، ایسی خدمت گذار حکومت کو گرانے میں اسرائیل کی قطعی کوئی دلچسپی نہیں۔

فلسطینی مظاہرین تین جون 2022 کو نابلس میں فلسطینی پرقم لہرا رہے ہیں جبکہ ان کے سامنے اسرائیلی سکیورٹی فورسز کی گاڑی کو دیکھا جا سکتا ہے (اے ایف پی/ جعفر آشتیے)

نتن یاہو فلسطینی ریاست کے قیام کے خلاف ہی نہیں بلکہ وہ کسی بھی ایسی ریاست سے متعلق ہر خواہش کی بیخ کنی اپنا سیاسی و مذہبی فریضہ سمجھتے ہیں۔ یہ بات دراصل ان کے گذشتہ مہینے اسرائیلی پارلیمنٹ کی خارجہ اور دفاعی امور کی کمیٹی کے سامنے دیے جانے والے بیان کا خلاصہ ہے۔

یہ تحریر کالم نگار کی زبانی سننے کے لیے کلک کیجیے

محمود عباس اتھارٹی کے کارپرداز یہ بات سن کر ایسے سٹپٹائے، جیسے انہیں فلسطین کی آزادی اور ریاست سے متعلق اسرائیلی خیالات کا پہلے سے اندازہ نہیں تھا۔

فلسطینی ایوان صدارت کے ترجمان نے نتن یاہو کے بیان کا غصے سے بھرپور جواب دیتے ہوئے زور دیا کہ آزاد فلسطینی ریاست کے ذریعے ہی ’سکیورٹی‘ اور ’استحکام‘ یقینی بنایا جا سکتا ہے، لیکن انہوں نے یہ بتانے سے گریز کیا کہ یہ ’سلامتی‘ اور ’استحکام‘ کس کا ہو گا؟

امریکی ہمدردی حاصل کرنے کی خاطر فلسطینی حکام ’سلامتی‘ اور ’استحکام‘ جیسی اصطلاحات کا استعمال بکثرت کرتے رہتے ہیں۔ یہ بیانیہ مشرق وسطیٰ اور فلسطین سے متعلق امریکی سیاسی ڈکشنری کا آزمودہ منترا ہے۔ ’سکیورٹی‘ کا تعلق عملاً اسرائیل سے جوڑا جاتا ہے جبکہ ’استحکام‘ سے مراد خطے کے حوالے سے امریکی ایجنڈا ہے۔

اسرائیل کے لیے یہ بیانیہ انتہائی اہمیت کا حامل ہے، تاہم تل ابیب ’سکیورٹی‘ اور ’استحکام‘ کی اپنی من چاہی تشریح کر کے فلسطینی قیادت کو بے وقعت کرنے کا کوئی بھی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔

اسرائیلی حوالے سے دیکھا جائے تو سکیورٹی کو دو طریقوں سے یقینی بنایا جاتا ہے۔ اول غیر مشروط امریکی حمایت اور دوم فلسطینی اتھارٹی اور قابض اسرائیلی فوج کے درمیان سلامتی سے متعلق معاملات پر تعاون اور کوآرڈینیشن۔ یہ دونوں پہلو ہمہ وقت اسرائیل کے خوابوں کو حقیقت میں بدلنے کے لیے حاضر و موجود ہوتے ہیں۔

تل ابیب ان دونوں حوالوں سے اسرائیلی سلامتی کا ضامن سمجھا جاتا ہے اور نتن یاہو کو اس بات کی صداقت پر اتنا پختہ یقین ہے کہ اپنے ایک حالیہ تبصرے میں انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ ’فلسطینی اتھارٹی بظاہر جن علاقوں کا انتظام و انصرام چلاتی دکھائی دیتی ہے، وہ دراصل ہماری (اسرائیل) ہی کی خدمت بجا لا رہی ہوتی ہے، ایسی خدمت گذار حکومت کو گرانے میں ہماری قطعی کوئی دلچسپی نہیں۔‘

یہی وجہ ہے کہ جنین میں حالیہ اسرائیلی جارحیت کے بعد فلسطینی صدر محمود عباس نے جب متاثرہ مہاجر کیمپ کا دورہ کیا تو وہاں بڑے پیمانے پر اسرائیلی جنگی مشین کے ذریعے پھیلائی جانے والی تباہی اور مزاحمت کاروں کا دلیرانہ مقابلہ دیکھ کر انہوں نے جنین کو ’مزاحمت کا مرکز‘ قرار دیے دیا۔

اس بیان پر اسرائیل کے کان کھڑے ہوئے تو فوری طور پر ابو مازن کو پیغام بھجوایا گیا کہ ’ہم آپ کی حکومت گرنے نہیں دیں گے، پھر ایسے اقدامات کی لمبی فہرست جاری کر دی گئی جس سے محمود عباس کے اعتماد کو بحال کرنا مقصود تھا۔‘

یہ تمام صورت حال اس بات کی غماز ہے کہ نتن یاہو فلسطینی اتھارٹی کو اسرائیل کا ایک ایسا دفاعی حصار سمجھتے ہیں، جسے اسرائیل فلسطینیوں کے خلاف اپنی جنگ میں بطور ڈھال استعمال کر سکتا ہے، حالانکہ نظری طور پر فلسطینی اتھارٹی کو فلسطینیوں کی نمائندہ اور ڈھال ہونا چاہیے۔

جہاں تک استحکام کا تعلق ہے، یہ بات اسرائیل کے لیے قدرے تشویش کا باعث ہے۔ اسرائیل اس استحکام کی تعریف کچھ ایسے کرتا ہے کہ اس میں نہ صرف فلسطین بلکہ پورا خطہ اسرائیل کے مکمل طور پر زیرنگیں ہو۔

یہ بیانیہ ہوا میں تیر چلانے یا زیب داستان کا مظہر نہیں بلکہ اس کی بنیاد اور جواز خود اسرائیلی حکام کے بیانات اور ان کی روشنی میں زمین پر اٹھائے جانے والے اقدامات ہیں۔

دائیں بازو کے نمائندہ سخت گیر اسرائیلی وزیر مالیات بیزالیل سموٹریچ نے رواں برس مارچ میں جب یہ بیان دیا کہ ’فلسطینیوں کا کوئی وجود نہیں کیونکہ فلسطینی عوام نام کی کوئی بھی چیز موجود نہیں۔‘

ان کا یہ بیان تاریخ پر لیکچر یا منافرت پر مبنی اظہاریہ نہیں تھا بلکہ وہ بلاواسطہ طور پر یہ کہنا چاہ رہے تھے کہ اسرائیل کے ان لوگوں کے خلاف اقدامات ناقابل احتساب ہیں، جن کا کوئی اخلاقی، قانونی اور سیاسی وجود ہی نہیں۔ 

سموٹریچ کا بیان فلسطینیوں کی نسلی تطہیر کے مرتکب اسرائیلی حامیوں کی پالیسیوں سے مکمل طور پر ہم آہنگ تھا۔ پوری دنیا سے لا کر غرب اردن میں غیر قانونی طور پر بسائے جانے والے یہ خطرناک مسلح یہودی آباد کار ہی ہیں جنہوں نے فروری میں حوارہ، گذشتہ مہینے ترمس آية اور دوسرے فلسطینی دیہات اور قصبوں میں فلسطینیوں کے خون کے ساتھ ہولی کھیلی۔

امریکیوں سمیت کسی بھی یورپی ملک کو سموٹریچ یا فلسطینیوں کو قتل، ان کے گھروں اور گاڑیوں کو نذر آتش کرنے والے آباد کاروں کے مسلح جتھوں کے خلاف اقدام کی جرات نہیں ہوئی۔ ان کارروائیوں میں دسیوں فلسطینیوں کی اموات اور سینکڑوں زخمی ہوئے۔

یہ ایک مزمنہ اور بڑے ناسور (اسرائی) کی چھوٹی نشانیاں ہیں۔ اسرائیل جہاں دل کرے، من چاہے اقدامات کر گزرتا ہے جبکہ اس کے امریکی سرپرست پرانا سیاسی سکرپٹ پڑھ کر آنکھیں موند لیتے ہیں، جیسے زمین پر کچھ ہوا ہی نہیں۔

امریکی خارجہ پالیسی تشکیل دینے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل فلسطین کے فوجی قبضے کے خاتمے میں ایک فیصد بھی دلچسپی نہیں رکھتا۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر امریکہ دونوں فریقوں کو نام نہاد امن عمل شروع کرنے کے لیے آئے روز کیوں مجبور کرتا ہے؟

امریکی خارجہ پالیسی کے تخلیق کار تنظیم آزادی فلسطین اور اسرائیل کے مابین اوسلو معاہدے پر دستخط کے بعد سے یہی راگ الاپ رہے ہیں۔ اس پالیسی پر عمل درآمد سے صورت حال انتہائی مخدوش ہوتی جا رہی ہے، یہودیوں کے لیے نئے مکانات کا جنگل غرب اردن میں بسایا جا رہا ہے، دنیا بھر سے یہودی لا کر وہاں آباد کیے جا رہے ہیں۔ اس کے نتیجے میں فلسطینیوں کے حالات مزید بگاڑ کا شکار ہو رہے ہیں۔ حالات کی یہ خرابی صرف اسرائیلی مظالم میں اضافے کی شکل میں ہی نہیں بلکہ فلسطینی اتھارٹی کی جبر پر مبنی پالیسیوں اور کرپشن کی صورت میں فلسطینیوں کی زندگی اجیرن بنا رہی ہے۔

معاہدہ اوسلو ابتدائے آفرینش سے ہی فلسطینیوں کے خلاف تھا کیونکہ اس معاہدے کی تشکیل بین الاقوامی طور پر مسلمہ اصولوں کے خلاف ہوئی۔ اسے نافذ کرنے کے لیے فلسطینیوں کے پاس کوئی مینڈیٹ نہیں تھا اور اسرائیل نے معاہدے میں جو ڈیڈ لائنز مقرر کیں، وہ خود ہی وقت آنے پر ان سے مکرتا چلا گیا۔ نتن یاہو اور ان سے پہلے کی اسرائیلی قیادت خم ٹھونک کر اس معاہدے کو ناکام بنانے میں جتی رہی۔

یہودی بستیوں کی تعمیر اور توسیع روکنے کا مطالبہ نتن یاہو کی چڑ بن چکا ہے۔ اس بات سے موجودہ وزیراعظم اس قدر نالاں دکھائی دیتے ہیں کہ وہ ماضی میں کئی مرتبہ اپنے سرپرست امریکہ بالخصوص باراک اوباما کو بھی اس معاملے پر جلی کٹی سنانے سے باز نہیں آئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اسرائیلی رہنما خود کو ہر قانون سے بالا تر سمجھتے ہیں، کسی بھی ضابطے پر عمل کرنا ان کی توہین ہے، چاہے اس اقدام پر امریکہ کی خوشنودی ملنے کا امکان ہی کیوں نہ ہو۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نتن یاہو نے نہ صرف بین الاقوامی کمیونٹی اور امریکہ کا دباؤ مسترد کیا بلکہ انہوں نے اسرائیلی معاشرے کے لبرل سیاسی حلقوں کے جذبات کو بھی اہمیت دینا چھوڑ دی۔

نتن یاہو جس اتحادی حکومت کی قیادت کر رہے ہیں، اسے کسی تنقید سے کوئی سروکار نہیں۔ وہ دائیں بازو کا نمائندہ انتہائی انتہا پسند ایجنڈا بلا روک مکمل کرنے کی راہ پر بگٹٹ دوڑے جا رہے ہیں۔

مسٹر یاہو کا حالیہ تبصرہ اسرائیلی حکومت کے سابقہ مشیر ڈوو وائسگلاس کے بیان سے زیادہ مہلک ہے۔ وائسگلاس نے غزہ کی پٹی میں اسرائیلی فوج کی تعیناتی کا مقصد بیان کرتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ 2005 کی اس کارروائی کا مقصد ’امن عمل کو منجمد کرنا تھا۔‘

وائسگلاس نے کثیر الاشاعت اسرائیلی اخبار ہارٹز کو بتایا: ’فلسطینی ریاست کے قیام کی منزل اس وقت حتمی طور پر کھوٹی کی جا سکتی ہے جب آپ مہاجرین کے معاملے، مقبوضہ بیت المقدس سرحد کا تعین جیسے نقاط کو امن عمل ایجنڈے سے نکال دیں۔ فلسطینی ریاست کا یہ پورا منصوبہ ہم نے غیر معینہ مدت کے لیے اپنے ایجنڈے سے نکال دیا ہے۔‘

امن عمل اور اوسلو معاہدہ پر عمل درآمد بہت پہلے ہی اسرائیلی ایجنڈے سے نکالا جا چکا ہے، تاہم اسرائیلی رہنما حوالے کے طور پر فلسطینی ریاست کا ذکر کرتے رہے ہیں تاکہ امریکہ کی خارجہ پالیسی کو کم سے کم درجے میں مطمئن رکھا جا سکے۔

نتن یاہو یہ کھیل ایک سے زائد مرتبہ کھیل چکے ہیں۔ اس سال فروری میں سی این این کو انٹرویو میں انہوں نے دلیل پیش کی تھی کہ ’خود مختاری کے بغیر فلسطینی ریاست کا قیام ممکن ہے۔‘

اب نتن یاہو پرانی باتوں کو بھول کر نئی سیاسی حقیقتوں کی جانب پیش قدمی کے لیے پر تول رہے ہیں، جہاں آزاد فلسطینی ریاست کا وجود ایک محال خیال بن کر رہ جائے اور آزاد فلسطینی ریاست کے لیے فلسطینیوں کی آشائیں دم توڑ دیں۔

راقم کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ نتن یاہو کا بدطینت سہی مگر ایمان دارانہ بیانیہ مزید اسرائیلی تشدد اور فلسطینیوں کی مزاحمت کو ہوا دے گا۔ اس سے دھوکہ دہی پر مبنی ’سلامتی‘ اور ’استحکام‘ کا بیانیہ بھی اپنی موت آپ مر جائے گا۔ پھر فلسطینی مزاحمت کار ہوں گے اور خیبر خیبر یا یہود جیش محمد سوف یعود

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آر پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر