نئی دہلی: پاکستان کے ہندو تارکین وطن انڈیا میں بے آسرا

نئی دہلی کے مضافاتی علاقوں میں پاکستان سے آئے ہندو تارکین وطن کے تقریباً 300 خاندان عارضی پناہ گاہوں میں موجود ہیں جہاں پر انہیں بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔

نئی دہلی کے مضافاتی علاقوں ’مجنوں کا ٹیلہ‘ اور ’سگنیچر برج‘ کی عارضی پناہ گاہوں میں پاکستانی ہندو تارکین وطن کے تقریبا 300 خاندان موجود ہیں جہاں انہیں زندگی گزارنے کی بنیادی سہولتیں بھی میسر نہیں۔

انڈیا میں ہزاروں کی تعداد میں پاکستان سے آئے ہندو تارکین وطن مختلف شہروں میں پناہ گزین ہیں۔

دہلی میں دو ایسے مقامات ہیں جہاں پاکستانی ہندوؤں کے 300 خاندانوں نے پناہ لے رکھی ہے۔ تقریباً 80 خاندانوں کا کیمپ جمنا ندی کے کنارے ’سگنیچر برج‘ کے نیچے ہے۔ جبکہ 200 خاندان ’مجنوں کا ٹیلہ‘ میں قایم ایک بڑی بستی میں رہ رہے ہیں۔

یہ سب نئے مگر متنازع شہریت قانون سے پر امید ہیں لیکن بے گھر ہونے کے اندیشوں سے گھرے رہتے ہیں۔

ابھی حال ہی میں دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے ان پاکستانی ہندو خاندانوں کے عارضی کیمپوں کو منہدم کرنے کا نوٹس دیا تھا۔ جس پر دہلی ہائی کورٹ نے روک لگا دی۔

انڈیپنڈینٹ اردو سے بات کرتے ہوئے پاکستانی ہندو تارکین وطن شہریت قانون سے پر امید نظر تو آئے تاہم جس طرح کی زندگی وہ گزار رہے ہیں، اس کا انہیں بہت شکوہ ہے۔ بہرحال وہ بی جے پی حکومت کی تعریف کے پل بھی باندھتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

قابل ذکر ہے کہ انڈیا کی مودی حکومت نے رواں مہینے میں شہریت ترمیمی قانون کو نافذ کردیا ہے۔

اس قانون کے تحت مذہبی شناخت کی بنیاد پر ہراسانی کے شکار غیر مسلم افراد کو انڈیا میں شہریت دی جائے گی۔

اس قانون کے نفاذ کے بعد پاکستان سے آئے ہندو تارکین وطن نہ صرف شہریت کے لیے پر امید ہیں بلکہ ایک اچھی زندگی کی توقع بھی رکھ رہے ہیں۔ اسی درمیان دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی نے 4 مارچ کو ایک نوٹس نکال کر پاکستانی ہندو تارکین وطن کو 6 مارچ تک اپنے کیمپ، جھگیاں خالی کرنے کے احکامات دیے۔

عمل آوری نہ ہونے کی صورت میں انہدامی کاروائی کی بات کہی گئی۔

تاہم دہلی ہائی کورٹ نے پناہ گزین ہندوؤں کے گھروں پر بلڈوزر کرنے سے روکنے کی ہدایت دی اور 19 مارچ کی سماعت ملتوی ہوگئی۔ کئی سالوں سے مجنوں کا ٹیلہ میں مقیم پاکستانی ہندو تارکین وطن کو عارضی راحت مل گئی تاہم انہیں اب یہ خوف ستا رہا ہے کہ ایک طرف انہیں شہریت دینے کے لیے قانون نافذ کیا گیا ہے تو دوسری طرف انہیں بے گھر ہونے کے اندیشوں کا سامنا ہے۔

مجنوں کا ٹیلہ کیمپ میں مقیم پاکستان تارکین وطن میرا نے بتایا کہ ’ہمارے کیمپ میں 200 گھر ہیں۔ یعنی 200 جھگیاں ہیں۔ کچھ دن قبل دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی والے توڑنے آئے تھے۔ جو خود سرکار کے تحت ہے۔ ہمیں نوٹس دے کر گئے تھے کہ اپنے مکان خالی کرکے چلے جاؤ۔ اس وقت ہم بہت پریشان ہوئے تھے۔ ہم بخار میں تھے۔ سارے محلہ کو پریشانی ہوگئی تھی‘۔

میرا نے ہندوستان پہنچنے کے بعد ایک آشیانہ بنانے کے اپنے سفر کے بارے میں بتایا کہ ’جب ہم یہاں آئے، یہاں بہت مچھر تھے، سانپوں کا بسیرا تھا۔ کسی طرح ہم نے جنگل کاٹ کر یہ مکان بنایا۔ ملبہ اور پتھر اٹھا کر سڑک  کے کنارے گرے پتھر اور اینٹ چن چن کر یہ جھگی بنائی‘۔  

میرا اپنے پاکستان کے دنوں کو یاد کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ ’ممی پاپا، بھائی اور خاندان کو چھوڑ کر یہاں آئے ہیں۔ وہاں ہمیں بجلی میسر تھی، زمین اپنی تھی، اپنا گھر تھا، ہم نے مسلمانوں کو بیچ دیا۔ اب جب ہم وہاں سے یہاں آ گئے ہیں تو بھارت ہی ہمارا گھر ہے۔ اب یہاں بھی ہمیں کوئی بولے کے یہاں سے نکلو تو کہاں جائیں گے؟‘

عارضی کیمپ میں رہائش پذیر جمنا بھی بڑی مشکلات سے زندگی بسر کررہی ہیں۔

وہ سگنیچر برج کے نیچے عارضی کیمپ میں اپنے بیٹے اور بہو کے ساتھ رہتی ہیں۔

انہوں نے انڈیپنڈینٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمارے حالات اچھے نہیں ہیں۔ کبھی روٹی پکتی ہے کبھی نہیں۔ روزی روٹی بھی نہیں ہے۔ کمائی نہیں ہے۔ بچوں کا مستقبل نہیں ہے۔ اسکول نہیں ہے اچھا۔ کوئی علاج کا انتظام نہیں ہے۔ کوئی کاروبار نہیں ہے کہ بچے اس میں لگ جائیں۔ پھر بھی ہمیں مودی پر یقین ہے کہ ہمیں وہ کچھ بنا کر دے گا‘۔

انہوں نے مجبوری کے احساسات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’اب ہم کسی کو بول بھی نہیں سکتے۔ بولیں گے تب بھی کوئی مدد نہیں کرتا۔ جمنا بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ہمارے اپنے مکان تھے، روزی روٹی تھی، کھیتی باڑی بھی کرتے تھے، کاروبار بھی ادھر چلتا تھا۔ اس کے باوجود بھارت آگئے کیونکہ یہ دیش ہمیں اپنا لگا۔ ہم جب یہاں اپنے سسر اور ساس کی آخری راکھ لے کر یہاں آئے، تو دیکھا کہ یہ اپنا دیس ہے‘۔

کچوری بیچ کر گزارہ کرنے والے پورن داس جو کہ دو سال پہلے انڈیا آئے تھے، شناختی کارڈ نہیں ہونے کی وجہ سے بنیادی سہولیات سے محرومی کی شکایت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’ہمارے پاس آدھار کارڈ نہیں ہے۔ ہم میں سے جب کوئی بیمار پڑ جاتا ہے اور ہسپتال جاتے ہیں، یا ولادت کا مسئلہ ہوتا ہے۔ تو ہمیں ہسپتال میں داخلہ نہیں ملتا۔ وہ بولتے ہیں آدھار کارڈ لاؤ۔ وہ ہم کہاں سے لائیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ ’ہمارے گھر ٹوٹنے کا ڈر رہتا ہے، کیوں کہ یہ جمنا کی جگہ ہے۔ جتنے بھی یہ کیمپ میں ہے، سب ڈیم کے قریب ہے۔ پانی جب آتا ہے، بارش ہوتی ہے تو ہم پل کے اوپر چلے جاتے ہیں۔ مجنوں کے ٹیلے میں توڑنے آئے تھے۔ آڈر دیا ہوا ہے، وہ کہاں جائیں گے‘۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا