مسلمانوں کے خلاف امتیازی انڈین شہریت کے قانون پر احتجاج

انڈیا کی وزارت داخلہ کی جانب سے اس قانون کے نفاذ کے اعلان کے بعد پیر کی رات شمال مشرقی ریاست آسام اور دارالحکومت دہلی میں ان ناقدین کی طرف سے تازہ مظاہرے شروع ہوئے جن کے بقول یہ قانون مسلم مخالف ہے۔

انڈین حکومت کے متنازع شہریت کے قانون سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) کے خلاف امرتسر میں 24 فروری 2024 کو مظاہرہ کیا جا رہا ہے (اے ایف پی)

انڈین وزیر اعظم نریندر مودی کی حکومت نے پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے چار سال بعد ہریت کا متنازع قانون نافذ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جسے مسلمانوں کے خلاف امتیازی سلوک قرار دیتے ہوئے تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

دی سٹیزن شپ امینڈمنٹ ایکٹ (سی اے اے) جس کے متعلق ہندو قوم پرست حکومت ’پناہ گزینوں کے حامی‘ ہونے کا دعویٰ کرتی ہے، 2024 کے ان عام انتخابات سے چند ہفتے قبل نافذ العمل ہوا ہے، جن میں مودی مسلسل تیسری مدت کے لیے انتخاب لڑ رہے ہیں۔

یہ قانون پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان کے ان پناہ گزینوں کوانڈین شہریت کے لیے درخواست دینے کا حق دیتا ہے جو 31 دسمبر 2014 سے پہلےانڈیا پہنچے تھے – لیکن صرف اس صورت میں جب وہ ان کا تعلق ان مسلم اکثریتی ممالک کے اقلیتی مذہبی برادریوں سے ہو۔

انڈیا کی وزارت داخلہ کی جانب سے اس قانون کے نفاذ کے اعلان کے بعد پیر کی رات شمال مشرقی ریاست آسام اور دارالحکومت دہلی میں ان ناقدین کی طرف سے تازہ مظاہرے شروع ہوئے جن کے بقول یہ قانون مسلم مخالف ہے۔

2019 میں جب یہ قانون پہلی بار منظور کیا گیا تھا توانڈیا میں اس کے خلاف بڑے پیمانے پر ملک گیر مظاہرے اور دھرنے دیکھے گئے، جس کے نتیجے میں متعدد اموات اور گرفتاریاں ہوئی تھیں۔

ردعمل کے بعد، حکومت نے کہا کہ اسے قواعد کو حتمی شکل دینے کے لیے وقت درکار ہوگا، اور مزید تاخیر کی ذمہ داری وبائی مرض کووڈ -19 پر ڈال دی گئی۔

اس قانون کے ناقدین کے بقول یہ انڈیا کے سیکولر آئین کی خلاف ورزی ہے اور خدشہ ہے کہ سی اے اے کو مجوزہ ملک گیر نیشنل رجسٹر آف سٹیزن (این آر سی) کے ساتھ ملا کرانڈیا میں رہنے والے 20 کروڑ مسلمانوں کے ساتھ امتیازی سلوک کیا جا سکتا ہے، بالخصوص سرحدی ریاستوں میں۔

2014 میں بی جے پی کے بر سر اقتدار آنے کے بعد سے مختلف رپورٹس میں مسلمانوں کے خلاف نفرت پر مبنی جرائم میں اضافے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور ناقدین کا کہنا ہے کہ مودی نے اس طرح کے واقعات کی مذمت کرنے کے لیے کچھ نہیں کہا ہے یا کچھ نہیں کیا ہے۔

سی اے اے کا نفاذ 2019 کے گذشتہ عام انتخابات سے پہلے بی جے پی کے منشور کے اہم وعدوں میں سے ایک تھا۔ وزیراعظم کے دفتر کے ایک ترجمان نے کہا کہ ’اس سے ظلم و جبر کے شکار لوگوں کے لیے انڈیا میں شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوگی۔‘

وزارت داخلہ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ قانون پناہ گزینوں کے لیے شہریت کی قانونی رکاوٹوں کو دور کرے گا جس سے دہائیوں سے مشکلات کا سامنا کرنے والوں کو ’باوقار زندگی‘ ملے گی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بیان میں کہا گیا کہ اس قانون کے بارے میں ’بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ یہ قانون صرف ان لوگوں کے لیے ہے جو برسوں سے ظلم و ستم سہہ رہے ہیں اورانڈیا کے علاوہ دنیا میں ان کے پاس کوئی اور پناہ گاہ نہیں ہے۔‘

وزیر داخلہ امت شاہ نے ایکس پر مودی کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ وزیراعظم نے ’ایک اور وعدہ پورا کیا اور ان ممالک میں رہنے والے ہندوؤں، سکھوں، بودھوں، جین، پارسیوں اور عیسائیوں سے ہمارے آئین سازوں کے وعدے کو پورا کیا۔‘

مغربی بنگال کی وزیر اعلیٰ اور مودی کے سخت ترین ناقدین میں سے ایک ممتا بینرجی نے اس وقت سی اے اے کے نفاذ کے خلاف غم وغصے کا اظہار کیا جب انتخابات میں صرف چند ہفتے باقی رہ گئے ہیں۔

مغربی بنگال کے تین کروڑ 10 لاکھ سے زیادہ مسلمانوں نے اس قانون کی مخالفت کی اور خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اسے پڑوسی ملک بنگلہ دیش سے غیر قانونی تارکین وطن قرار دینے کے لیے ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔

ممتا بینرجی نے کہا کہ ان کی حکومت ’لوگوں کے ساتھ امتیازی سلوک کرنے والی کسی بھی چیز کی ڈٹ کر مخالفت کریں گی۔‘

انہوں نے کہا کہ ’اگر کوئی امتیازی سلوک ہوتا ہے، تو ہم اسے قبول نہیں کریں گے۔ چاہے وہ مذہب ہو، ذات پات ہو یا لسانیت۔ وہ دو دن میں کسی کو شہریت نہیں دے سکتے۔ یہ صرف لولی پاپ اور دکھاوا ہے۔‘

ملک کی حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت انڈین نیشنل کانگریس کے ایک ترجمان نے اس قانون کو نافذ العمل کرنے کے وقت پر سوال اٹھایا ہے۔

ترجمان جے رام رمیش نے ایکس پر کہا کہ ’قواعد کے نوٹیفکیشن کے لیے نو بار توسیع مانگنے کے بعد، انتخابات سے ٹھیک پہلے کا وقت واضح طور پر انتخابات کو پولرائز کرنے کے لیے ہے، خاص طور پر مغربی بنگال اور آسام میں۔‘

شمال مشرقی ریاست آسام میں اس وقت سے بدامنی ہے جب غیر قانونی طور پرانڈیا آنے والے لوگوں کو باہر نکالنے کے لیے شہریوں کا قومی رجسٹر نافذ کیا گیا تھا، جس کی تعریف 1971 کے بعد سرحد پار آسام میں ہجرت کرنے والے کسی بھی شخص کے طور پر کی گئی ہے۔

اس قانون سے رہائشیوں پر اپنی شہریت ثابت کرنے والے دستاویزات دیکھانے کا بوجھ یا ملک بدری کا خطرہ ہے۔

جنوبی ریاست کیرالہ پر حکومت کرنے والی کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی ایم) نے منگل کو ریاست گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔

کیرالہ کے وزیر اعلی پنارائی وجین نے ایک بیان میں کہا کہ ’لوگوں کو تقسیم کرنے، فرقہ وارانہ جذبات بھڑکانے اور آئین کے بنیادی اصولوں کو کمزور کرنے کے لیے ہے۔ مساوی حقوق رکھنے والےانڈین شہریوں کو تقسیم کرنے کے اس اقدام کی مل کر مخالفت کی جانی چاہیے۔‘

مستند خبروں اور حالات حاضرہ کے تجزیوں کے لیے انڈپینڈنٹ اردو کے وٹس ایپ چینل میں شامل ہونے کے لیے یہاں کلک کریں۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا