قیامِ پاکستان کے بعد سے کراچی ایک طویل عرصے تک جرائم کی دلدل میں نہیں دھنسا تھا اور بڑے پیمانے پر صعنتوں کے جال اور کاروباری و تفریحی سرگرمیوں نے عوام کی ایک بڑی تعداد کو روزگار فراہم کیا۔
چونکہ شہر کو دارالحکومت کا درجہ بھی حاصل تھا، اس لیے یہاں سکیورٹی کے انتظامات بھی سخت تھے اور جرائم پیشہ افراد کی یہاں دال گلنا مشکل تھی۔
لیکن حالیہ کئی واقعات سے ایسا لگتا ہے کہ شہر جرائم پیشہ افراد کی آماجگاہ بنا ہوا ہے۔ ایک طرف لیاری، سہراب گوٹھ، قائد آباد اور ملیر سمیت شہر کے کئی علاقوں میں منشیات کے اڈے چل رہے ہیں تو دوسری طرف شہر کی سڑکوں پر سٹریٹ کرمنل کا راج دکھائی دیتا ہے۔ سٹریٹ کرائمز کی وجہ سے اب تک کئی افراد موت کا شکار ہو چکے ہیں، جن میں ایک اچھی خاصی تعداد نوجوانوں کی ہے۔
پولیس کی ایک بڑی تعداد شہر کے ضلع جنوبی کے پوش علاقوں میں مصروف رہتی ہے، جہاں صوبے اور ملک کی اشرافیہ سکونت پذیر ہے۔ ڈیفنس، کلفٹن اور کچھ دیگر امیر علاقوں میں جرائم کی شرح نسبتاً کم ہے کیونکہ ان علاقوں میں پولیس، رینجرز، سکیورٹی گارڈز اور وزرا و بااثر شخصیات کے اپنے ذاتی محافظوں کے دستے موجود ہیں۔
اس کے علاوہ ان علاقوں میں جگہ جگہ سی سی ٹی وی کیمرے بھی نصب ہیں، تاہم متوسط اور مزدور پیشہ علاقوں میں سٹریٹ کرائمز کا سرطان بڑھتا جا رہا ہے۔
اس صورت حال کے پیش نظر شہریوں نے اپنے تئیں ڈاکوؤں کے خلاف کارروائیاں شروع کر دی ہیں، جس کی ایک تازہ مثال نارتھ ناظم آباد کے ایک نوجوان کی موت ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
22 سالہ نوجوان شیخ محمد نہال اپنے چچا شیخ محمد ایاز کے ساتھ بدھ کی صبح جمالی پل کے علاقے، جو کراچی کے سپر ہائی وے پر واقع ہے، سے اپنی موٹر سائیکل پر گزر رہا تھا۔ اسے دو موٹر سائیکل سوار ڈاکوؤں نے روکنے کی کوشش کی، جس پر اس نے اپنے لائسنس یافتہ ہتھیار سے فائرنگ کر دی، تاہم ڈاکوؤں کی جوابی فائرنگ کے نتیجے میں وہ بھی چل بسا اور دو ڈاکو بھی۔
کہا جاتا ہے کہ نہال اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس جواں سال موت کی وجہ سے کراچی کے علاقے نارتھ ناظم آباد کے اس شہری کے گھر میں کہرام مچ گیا، لیکن یہ صرف ایک موت نہیں ہے۔
اس سال کا پانچواں مہینہ ابھی چل رہا ہے اور تقریباً 68 افراد سٹریٹ کرائمز کے دوران ڈاکوؤں کے ہاتھوں موت کا شکار ہو چکے ہیں جبکہ درجنوں زخمی بھی ہوئے ہیں۔
پولیس اور رینجرز پر اربوں روپیہ خرچ کرنے کے باوجود حکومت سندھ عوام کے جان و مال کے تحفظ میں ناکام نظر آتی ہے۔
سیٹزن پولیس لائژن کمیٹی، جسے سی پی ایل سی بھی کہا جاتا ہے، کے مطابق گذشتہ برس کراچی میں 27 ہزار 984 موبائل اور 262 کاریں چھینی گئیں۔
موٹر سائیکل جو غریب اور مزدور پیشہ افراد کی سواری ہے، اس پر سب سے بڑا عذاب نازل ہوا اور تقریباً 51 ہزار 871 شہریوں کی موٹر سائیکلوں کو چوری کیا گیا جب کہ سات ہزار 265 شہریوں سے موٹر سائیکلیں چھینی گئیں۔ اس کے علاوہ دوہزار 43 کاریں چوری بھی کی گئیں۔
شہریوں کی ایک بڑی تعداد اب موبائل یا پرس چھن جانے پر پولیس کے پاس جاکر رپورٹ بھی درج نہیں کرواتی کیونکہ پولیس پر یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ مجرموں کو پکڑنے کے بجائے لٹ جانے والے لوگوں سے ایف آئی آر یا تفتیش کے نام پر پیسے بٹورنا شروع کردیتی ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ کئی ڈکیتیوں یا موبائل چھینے کی وارداتوں میں لوٹنے والے ڈاکوؤں کے چہرے سی سی ٹی وی میں بالکل واضح ہوتے، لیکن اس کے باوجود بمشکل ہی کوئی مجرم پکڑا جاتا ہے۔
اگر سی سی ٹی وی کے کیمرے کی ان فوٹیجز کا پولیس فائدہ نہیں اٹھاتی تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ حکومت نے سیف سٹی کے نام پر اربوں روپیہ کیوں خرچ کیا تھا؟
حکومت کیوں نادرا سے رابطہ کرکے فوری طور پر ایسے افراد کا پتہ نہیں لگاتی، جن کی شکلیں سی سی ٹی وی فوٹیجز میں بالکل واضح ہیں۔
ایسا نہیں کہ پولیس کی جاسوسی کمزور ہے۔ تمام طرح کے حالات کے باجود پولیس آج بھی ہر علاقے میں مخبروں کا ایک جال رکھتی ہے۔ اگر آپ اپنے علاقے میں کھدائی یا کوئی تعمیراتی کام کریں تو اہلکار آپ کے دروازے پر آ کھڑے ہوں گے۔ اسی طرح اگر شادی کی تقریب دیر تک چلے تو بھی پولیس کو فوراً پتہ چل جاتا ہے۔
تاہم کراچی میں آپ کی بائیک اگر تھانے کے سامنے سے بھی چوری ہو جائے یا ایک ایسی جگہ سے چھن جائے، جس کے چاروں طرف سی سی ٹی وی کیمرے لگے ہوئے ہوں تو پولیس ان کیمروں کی فوٹیجز حاصل کرنے میں اور ایف آئی آر لکھنے میں اتنا وقت لگا دے گی کہ جب تک آپ کی موٹر سائیکل کراچی یا سندھ کی حدود نکل چکی ہوگی۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ سندھ پولیس نادرا کے ساتھ مضبوط روابط پیدا کرے۔ اگر سی سی ٹی وی کی فوٹیجز میں ڈاکوؤں کی شکلیں واضح ہیں تو ایسے جرائم پیشہ افراد کی عدم گرفتاری پر نہ صرف متعلقہ ایس ایچ او کو برطرف کیا جانا چاہیے بلکہ ڈی ایس پی اور ایس پی کا بھی احتساب ہونا چاہیے۔
نادرا صومالیہ سمیت کئی ممالک کی تکنیکی مدد کر رہا ہے۔ کوئی وجہ نہیں کہ وہ کراچی میں جرائم کی روک تھام کے لیے سندھ پولیس اور سندھ حکومت کی مدد نہ کر سکے، اس لیے سندھ حکومت اور پولیس کو نہ صرف نادرا کی خدمات سے فائدہ اٹھانا چاہیے بلکہ جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لا کر جرائم کا قلع قمع کرنا چاہیے تاکہ شہری سکون کا سانس لے سکیں۔
سندھ حکومت کو یہ بات پیش نظر رکھنی چاہیے کہ کچھ عناصر مجرموں کی لسانی شناخت کو اچھالتے ہیں، حالانکہ جرائم پیشہ افراد کسی بھی قوم یا ذات کے ہو سکتے ہیں، تاہم حکومت جرائم پر قابو پا کر اس گھناؤنے پروپیگنڈہ کا بھی توڑ کر سکتی ہے، جو لسانی اکائیوں میں نفرتیں پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے۔