ہوائی اڈوں پر اکیلی خواتین سے پوچھے جانے والے ’بیہودہ‘ سوالات

اکیلی خاتون کا سفر اب بھی پاکستانی معاشرے میں بعض لوگوں کو کھٹکتا ہے لیکن اگر اس کا اظہار ہوائی اڈوں پر تعینات عملہ کرنے لگے تو خواتین کو شدید تکلیف پہنچتی ہے۔

پاکستان کے اکثر ہوائی اڈوں پر غیرضروری سوالات پوچھنے کی شکایت عام ہے (اے ایف پی)

پاکستان بھر میں خواتین اب کافی بڑی تعداد میں نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک اکیلی سفر کرنے لگی ہیں۔ لیکن بعض اوقات اگر ان سے ہوائی اڈے پر ایسا غیرضروری سوال پوچھا جائے کہ ’آپ بیرون ملک جس دوست سے ملنے جا رہی ہیں وہ مرد ہے یا عورت؟‘ تو شدید کوفت یقینی ہے۔ 

پشاور سے تعلق رکھنے والی ایک نوجوان خاتون کو گذشتہ روز اس وقت شدید پریشانی کا سامنا کرنا پڑا جب باچہ خان بین الاقوامی ہوائی اڈے پر چیک اِن کے دوران ان سے عملے نے غیرمناسب اور غیر ضروری سوالات کرنے شروع کر دیے۔

خاتون نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چند سوالات انہیں بہت عجیب لگے لیکن وہ اس لیے جواب دیتی جا رہی تھیں کہ ہو سکتا ہے یہ سوالات ہر مسافر سے پوچھنا عملے کی ذمہ داری ہو۔ تاہم اس مرحلے سے گزر کر جب بالآخر انہیں جانے کی اجازت مل گئی تو انہوں نے یہ واقعہ اپنے دوستوں اور گھر والوں کو سنایا۔

نوشین خان (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ دراصل وہ اور ان کی دوست ترکی سیر کی غرض سے جا رہی تھیں۔ چونکہ ان کی دوست جرمنی میں رہتی تھیں اور وہاں سے آ رہی تھیں لہذا نوشین کو پاکستان سے اکیلے سفر کرنا پڑ رہا تھا۔

انہوں نے واقعے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا: ’13 ستمبر کی صبح جب میں نے چیک اِن کیا تو اینٹی نارکوٹکس کی ایک خاتون نے، جنہوں نے گرے رنگ کا سکارف پہنا ہوا تھا، میرا بیگ چیک کرتے وقت مجھ سے سوالات پوچھنا شروع کر دیے۔ مثلاً میں کہاں جا رہی ہوں اور کس کے ساتھ جا رہی ہوں۔ میں نے کہا ترکی جا رہی ہوں اور اکیلی جا رہی ہوں۔ جس پر خاتون نے مجھے کھوجی نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا کہ ترکی میں کوئی ساتھ ہوگا۔ میں نے کہا میری فرینڈ۔ باوجود اس جواب کے انہوں نے پوچھا کہ دوست مرد ہے یا عورت؟‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نوشین نے مزید بتایا: ’اس کے بعد امیگریشن کا مرحلہ آیا تو ان میں سے ایک آدمی نے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہوں اور کس لیے جا رہی ہوں۔ میں نے کہا ترکی جا رہی ہوں اور سیر کی غرض سے جا رہی ہوں۔ جس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بہت امیر ہو کیا؟‘ پھر انہوں نے دریافت کیا کہ ترکی میں کہاں ٹھہروں گی؟ وہاں کا ایڈریس کیا ہے؟ میں نے کہا سہیلی کی خالہ کے گھر۔‘

نوشین نے کہا: ’بیہودہ سوالات کے ساتھ مزید کوفت اس آدمی کے چہرے پر عجیب سی مسکراہٹ دیکھ کر ہوئی اور اس پر مجھے غصہ آ رہا تھا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ یہ بندہ پروفیشنل نہیں ہے۔‘

’لہذا میں نے پوچھا کہ کیا آپ مجھے تنگ کرنے کے لیے سوالات دہرا رہے ہیں؟ جس پر وہ اچانک سنجیدہ ہوگئے اور مجھے کہا کہ اب وہ مجھے جانے نہیں دیں گے۔ میں تقریباً دس منٹ تک وہاں کھڑی رہی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ اب کیا کروں۔ بالآخر انہوں نے یہ تنبیہ کر کے اجازت دی کہ آئندہ ایسی بات مت کرنا کہ میں تنگ کر رہا ہوں۔ حالانکہ خود بے شک غیر ضروری سوالات کرتے جائیں۔‘

نوشین کے مطابق جب انہوں نے یہ قصہ فیس بک پر خواتین کے ساتھ شیئر کیا تو ان کو معلوم ہوا کہ دیگر خواتین کے ساتھ اس سے بھی بڑھ کر واقعات پیش آئے تھے۔

سوشل میڈیا پر ایک خاتون نے لکھا کہ وہ اپنے چھوٹے بچوں سمیت بیرون ملک اپنے شوہر سے ملنے جا رہی تھیں تو ان سے پوچھا گیا کہ آیا وہ اصل میں شوہر سے ملنے ہی جا رہی ہیں یا کسی اور سے۔ حتیٰ کہ عملے نے یہ تک کہ دیا کہ جب تک وہ ان کی بات شوہر سے نہیں کروئیں گی تب تک ان کو جانے نہیں دیا جائے گا۔  

ایک اور خاتون نے بتایا کہ ہوائی اڈے پر ان کو اکیلے سفر کرتے دیکھ کر عملے کے ایک شخص نے انہیں ’عیاش‘ کہہ ڈالا۔ 

ان سب واقعات کے بارے میں جان کر نوشین نے فیصلہ کیا کہ وہ نہ صرف اپنے لیے بلکہ دوسری خواتین کے لیے بھی آواز اٹھائیں گی۔

انڈپینڈنٹ اردو نے نوشین کے واقعے میں امیگریشن ڈائریکٹر سے بات کی تو ان کو بھی عجیب لگا اور تسلیم کیا کہ کچھ سوالات جائز تھے لیکن کچھ سوالات غیرمناسب اور غیرضروری تھے۔ انہوں نے اس کی چھان بین کا وعدہ کیا۔

نوشین نے ایک تحریری شکایت بھی جمع کروا دی ہے۔

چونکہ اینٹی نارکوٹکس اور امیگریشن دو الگ ادارے ہیں لہذا انڈپینڈنٹ اردو کی نمائندہ نے ائیر پورٹ کے ڈیوٹی ٹرمینل مینجر (ڈی ٹی ایم) سے بھی ملاقات کی۔ یہ منتظم ایک خاتون تھیں اور انہوں نے نہایت خوش اسلوبی سے سمجھایا کہ جب بھی کسی کو دوران چیک اِن کسی قسم کا مسئلہ ہو تو فوراً کسی سے شکایت سیل کا پتہ کر کہ وہاں جانا چاہیے۔ اس کے علاوہ تمام ملازمین کے یونیفارم پر ان کے نام بھی چسپاں ہوتے ہیں۔ جس کے ساتھ مسئلہ ہو ان کا نام بھی نوٹ کر لینا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ ہوائی اڈوں پر پیش آنے والے واقعات کی شکایات درج کرانے کا ایک اور طریقہ بھی ہے۔ جس کو پی ڈی یو یعنی پرائم منسٹر ڈیلیوری یونٹ کہا جاتا ہے۔ پی ڈی یو گھنٹوں کے اندر واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ہوائی اڈے کے حکام کو تحقیقات کا حکم دیتا ہے۔ اور جب تک مسئلہ حل نہیں ہو جاتا ایئر پورٹ حکام پر دباؤ ڈالتا رہتا ہے۔

خاتون افسر نے بتایا کہ اب یہ مسافروں کی مرضی ہے کہ وہ ہمارے یہاں شکایت درج کرواتے ہیں یا خود آن لائن پی ڈی یو پر۔ مسافر دونوں کا انتخاب بھی کر سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ شکایت درج ہونے کے بعد درخواست گزار کو باخبر رکھا جاتا ہے کہ ان کی شکایت سے متعلق کارروائی کس مرحلے تک پہنچی ہے۔

دوسری جانب امیگریشن افسر کا کہنا تھا کہ اس واقعے میں ملوث لوگوں کو نوکری سے فارغ تو نہیں کیا جائے گا البتہ انہیں یہ وارننگ ضرور دی جائے گی کہ وہ دوبارہ غیر پیشہ ورانہ رویہ اپنانے سے گریز کریں۔

ان واقعات کے سامنے آنے کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ مسافروں خصوصا خواتین کے ساتھ روزانہ کی بنیاد پر ملنے والے عملے کے تربیت ضروری ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین