انٹرنیٹ ویڈیوز سے پارکور سیکھنے اور سکھانے والے کوئٹہ کے دو بھائی

 طالب حسین اور عارف حسین نے یہ کھیل انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھ کر سیکھا اور اب وہ ’پاک پارکور‘ کے نام سے اپنی اکیڈمی میں اس کھیل کو باقاعدہ طور پر لوگوں کو بھی سکھا رہے ہیں۔

بلند و بالا عمارتوں اور پہاڑوں پر چھلانگیں اور اونچی قلابازیاں لگانے پر مشتمل مغربی ممالک کا کھیل پارکور بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ میں بسنے والی ہزارہ کمیونٹی میں خاصا مقبول ہے۔

اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے دو نوجوان بھائیوں طالب حسین اور عارف حسین نے یہ کھیل انٹرنیٹ پر ویڈیوز دیکھ کر سیکھا اور اب وہ اس کھیل کو باقاعدہ طور پر لوگوں کو بھی سکھا رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دونوں بھائیوں نے ’پاک پارکور‘ کے نام سے ایک اکیڈمی قائم کر رکھی ہے، جہاں نوجوانوں کو پارکور سیکھایا جاتا ہے۔

 20 سالہ عارف حسین نے آٹھ سال قبل یہ کھیل کھیلنا شروع کیا تھا آج وہ اکیڈمی میں نئے بچوں کو پارکور سیکھا رہے ہیں۔

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں عارف حسین نے بتایا: ’پہلے ہم جمناسٹک کھیلتے تھے تو وہاں پر ہمیں صحیح معنوں میں وہ ٹریننگ نہیں مل رہی تھی جو ہمیں چاہیے تھی، لیکن جب انٹرنیٹ پر پارکور کی ویڈیوز دیکھیں تو وہیں سے ہمارا شوق شروع ہوا کیونکہ اس میں کھیلنا کودنا اور قلابازی لگانا ہوتا تھا۔‘

بقول عارف ایک سال تک ویڈیوز سے رموز و اسرار سیکھنے کے بعد 2017 میں انہوں نے اپنی اکیڈمی کھول لی، جس کے بعد سے آج تک وہ اپنی کمیونٹی کے نوجوانوں کو پارکور سکھا رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ آغاز میں پارکور کی صوبائی سطح پر پذیرائی نہ ہونے کے باعث وہ اور ان کے دوست اکیڈمی میں صرف کھیلنے کے لیے آتے تھے لیکن سات سال کا عرصہ گزرنے کے بعد اب اکیڈمی میں 60 سے 70 کھلاڑی ہیں، جو صبح سات سے نو بجے تک کے مختلف اوقات میں آتے ہیں اور ٹریننگ حاصل کرتے ہیں۔

عارف کے مطابق: ’پارکور سیکھنے کے لیے عمر کی کوئی حد نہیں ہے لیکن جتنی کم عمر میں سیکھنا شروع کریں، اتنا ہی بہتر ہے کیونکہ کم عمری میں انسانی جسم میں زیادہ لچک ہونے کی وجہ سے اسے کسی بھی کھیل کا عادی بنایا جاسکتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ اگر پارکور کو صوبائی اور ملکی سطح پر حکومتی سرپرستی مل جائے تو یہ نوجوان ملک کا اور قوم کا نام روشن کرسکتے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا