سندھ کے سنگ تراش اب بچوں کو آٹا چکی بنانا نہیں سکھا رہے

دورِ جدید میں بھی سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر، کوہستان اور کاچھو میں مشین کی بجائے گندم کو پتھر کی چکیوں سے پیس کر آٹا بنایا جاتا ہے، چکی کی تیاری کے دوران کاریگروں کی بینائی سمیت پھیپھڑے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

ایک بڑے میدان میں بنے ایک چھپر کے نیچے نجم الدین بروہی اور ان کے کچھ ساتھی بڑے پتھروں کو چھینی اور ہتھوڑی کی مدد سے تراش کر گول بنا رہے ہیں، جسے بعد میں گندم پیسنے والی چکی میں ڈھال دیا جائے گا۔

سندھ کے ضلع ٹھٹھہ اور جامشورو کے درمیان پھیلا ہوا پہاڑی علاقہ جسے مقامی لوگ کوہستان کہتے ہیں، میں نجم الدین بروہی جیسے سنگ تراش خاندان کئی نسلوں سے پتھروں کو تراش کر چکیاں بنانے کا کام کرتے ہیں۔

سندھ کا کوہستان رنگین پتھروں کی وجہ سے مشہور ہے، جہاں سے یہ سنگ تراش بڑے پتھر نکال کر گدھا گاڑی یا ٹرک میں لے آتے ہیں، جنہیں کاٹ کر چھوٹا کیا جاتا ہے اور بعد میں انہیں تراش کر گندم پیسنے کی چکیاں، سرمہ دانیاں، سلوٹیں یا دیگر چیزیں بنائی جاتی ہیں۔

یہ سنگ تراش ہر صبح آگ جلاکر چھینی اور دیگر اوزاروں کی دھار لگاتے ہیں تاکہ پتھر کو تراشنے کا کام ہوسکے۔ دھویں کے باعث ان کی بینائی بھی متاثر ہوتی ہے جبکہ پتھر کو تراشنے کے دوران مٹی سانس کے ساتھ جسم میں جانے سے پھیپھڑے بھی متاثر ہوتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجم الدین بروہی کے بقول پچھلے چار سالوں کے دوران جنگ شاہی میں 17 کاریگر پھیپھڑوں کے امراض کے باعث فوت ہوچکے ہیں۔ اس کے علاوہ ہتھوڑی اور چھینی سے پتھر تراشنے کے دوران نکلنے والے بُرادے نہ صرف ان کے ہاتھ، بازوؤں اور چہرے کے گوشت میں گھس جاتے ہیں بلکہ کبھی کبھی تو یہ بُرادے ان کی آنکھ کو بھی شدید متاثر کرتے ہیں۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ جب یہ اتنا خطرناک کام ہے، تو وہ ابھی تک اسے کیوں جاری رکھے ہوئے ہیں؟ جس پر نجم الدین بروہی نے بتایا: ’ہم پہاڑی علاقے میں رہتے ہیں جہاں کوئی مل یا کارخانہ نہیں ہے، جہاں سے ہم روزی روٹی کمائیں۔ ہم نے اپنے آبا و اجداد سے یہ کام سیکھا ہے، ہمیں اور کوئی کام نہیں آتا تو مجبوری میں یہ کام کر رہے ہیں، مگر اب ہم اپنے بچوں کو یہ کام نہیں سکھا رہے تاکہ وہ کوئی اور کام سیکھیں۔‘

دورِ جدید میں بھی سندھ کے صحرائے تھر، اچھڑو تھر، کوہستان اور کاچھو میں مشین کی بجائے گندم کو پتھر کی چکیوں سے پیس کر آٹا بنایا جاتا ہے۔ ایک چھوٹے سائز کی آٹا چکی کی قیمت دو ہزار روپے ہے جو دو دن میں تیار کی جاتی ہے۔ جنگ شاہی کے کاریگروں میں سے ہر ایک اوسطاً ہر مہینے پانچ سے آٹھ چکیاں فروخت کرتا ہے جن سے وہ مہینے بھر کا راشن لاتے ہیں۔

حکومتی سطح پر تربیت، علاج کی عدم فراہمی اور مالی امداد نہ ہونے کے باعث یہ کاریگر اپنے بچوں کو اس کام سے دور رکھ رہے ہیں اور ان سنگ تراشوں کے بعد کوہستان کا یہ شاہکار کام بھی ایک دن دم توڑتا نظر آئے گا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ملٹی میڈیا