لبنانی سرحد سے دستہ ہٹانے کی اسرائیلی درخواست مسترد: اقوام متحدہ

اقوام متحدہ کی عبوری فورس برائے لبنان (یونیفل) نے ہفتے کو کہا ہے کہ وہ اسرائیل کی جانب سے ’منتقلی‘ کی درخواست کے باوجود ملک کے جنوب میں پوزیشنیں نہیں چھوڑے گا۔

لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس (یونیفل) کا ایک ہسپانوی اہلکار 23 اگست 2024 کو جنوبی لبنان میں ایک شاہراہ پر گشت کے دوران (اے ایف پی)

اقوام متحدہ کی عبوری فورس برائے لبنان (یونیفل) نے ہفتے کو کہا ہے کہ وہ اسرائیل  کی جانب سے ’منتقلی‘ کی درخواست کے باوجود ملک کے جنوب میں پوزیشنیں نہیں چھوڑے گا۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق لبنان میں اقوام متحدہ کی عبوری فورس نے ایک بیان میں کہا: ’30 ستمبر کو اسرائیلی فوج نے یونیفل کو لبنان میں محدود زمینی کارروائی کرنے کے اپنے ارادے کے بارے میں اطلاع دی تھی۔ انہوں نے یہ درخواست بھی کی کہ ہم اپنی بعض پوزیشنوں سے نقل مکانی کر لیں۔‘

مزید کہا گیا کہ ’امن دستے تمام عہدوں پر موجود ہیں اور اقوام متحدہ کا پرچم لہراتا ہے۔‘

اس سے قبل رپورٹس سامنے آئی تھیں کہ اسرائیل کی فوج نے آئرلینڈ سے کہا تھا کہ وہ لبنان کی سرحد پر واقع ایک چوکی سے اپنا امن دستہ ہٹا دے۔

اخبار دی آئرش ٹائمز کے مطابق ذرائع نے تصدیق کی کہ یہ درخواست اقوام متحدہ کی عبوری فورس برائے لبنان (یونیفل) کے صدر دفتر اور فوجی دستے فراہم کرنے والے انفرادی ممالک کو، جن میں آئرلینڈ بھی شامل ہے، کی گئی۔

لبنان اور اسرائیل کی سرحد پر ایک آئرش چوکی ہے، جسے بلیو لائن کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اس مخصوص پوسٹ 6-52 پر صرف ایک آئرش پلاٹون تعینات ہے، جو سرحد کی نگرانی اور دراندازی کی رپورٹس دینے کی ذمہ دار ہے۔

یہ علاقہ اس ہفتے اسرائیلی فوج اور حزب اللہ کے درمیان شدید لڑائی کا مرکز تھا، جس کے دوران اسرائیل کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔

دی آئرش ٹائمز کا کہنا ہے کہ کچھ لڑائی آئرش چوکی سے دو کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر ہوئی۔

سرحد سے امن فوجیوں کو ہٹانے کی وارننگ سے اس بات کا خدشہ بڑھا ہے کہ اسرائیل سرحد کے آس پاس مکمل پیمانے پر حملہ شروع کر سکتا ہے۔

یہ سمجھا جاتا ہے کہ آئرش حکومت نے اسرائیلی حکام کو مطلع کیا ہے کہ یونیفل فوجیوں کی نقل و حرکت اقوام متحدہ اور زمین پر اس کے فورس کمانڈر کا معاملہ ہے اور یونیفل نے اسرائیل سے کہا ہے کہ وہ اپنے فوجیوں کو نہیں ہٹائے گا۔


اسرائیل ایرانی ایٹمی تنصیابت پر حملہ کرے: ٹرمپ

 امریکہ میں صدر کے لیے رپبلکن پارٹی کے امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے کہا ہے کہ ایران کے میزائل حملوں کے جواب میں اسرائیل کو چاہیے کہ وہ اس کی ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرے۔

فرانسیسی خبر رساں ایجنسی (اے ایف پی) کے مطابق سابق صدر نے شمالی کیرولائنا میں ایک انتخابی مہم کے دوران ایک سوال کے جواب میں کہا کہ یہی وہ چیز ہے جس پر حملہ کرنا چاہیے۔

ڈیموکریٹ صدر بائیڈن سے بدھ کو صحافیوں نے پوچھا تھا کہ کیا وہ ایرانی ایٹمی تنصیبات پر حملے کی حمایت کریں گے، تو ان کا جواب نفی میں تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ٹرمپ نے جمعے کو ایک سوال کے جواب میں کہا ’میرے خیال میں انہوں نے اسے غلط سمجھا۔ کیا یہی چیز نہیں جس پر حملہ کرنا چاہیے؟ میرا مطلب ہے، ہمارے لیے سب سے بڑا خطرہ ایٹمی ہتھیار ہیں۔‘

ٹرمپ نے مزید کہا: ’جب ان سے سوال پوچھا گیا، تو جواب یہ ہونا چاہیے تھا کہ پہلے ایٹمی تنصیبات پر حملہ کرو، اور باقی کی فکر بعد میں کرو۔

’اگر وہ (ایران) یہ کرنے والے ہیں، تو وہ کریں گے۔ لیکن ہم معلوم کر لیں گے کہ ان کے منصوبے کیا ہیں۔‘

بائیڈن نے بدھ کو ایران کی جانب سے داغے گئے تقریباً 200 میزائل کے جواب میں اس کی کی ایٹمی تنصیبات پر ایسے حملوں کی مخالفت کا اظہار کیا تھا۔

انہوں نے کہا تھا ’ہم اسرائیلیوں کے ساتھ تبادلہ خیال کریں گے کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ تمام جی سیون ارکان اس بات پر متفق ہیں کہ اسرائیل کو ’جواب دینے کا حق حاصل ہے، لیکن انہیں متناسب جواب دینا چاہیے۔‘


’اسرائیل کے ساتھ جنگ سے پیچھے نہیں ہٹیں گے‘

ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ خامنہ ای نے پانچ سال بعد نماز جمعہ کے خطبے میں اس عزم کا اظہار کیا کہ خطے میں ان کے اتحادی اسرائیل کے خلاف لڑتے رہیں گے۔

اے ایف پی کے مطابق خامنہ ای نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کا ایک سال مکمل ہونے اس کچھ روز قبل خطاب کرتے ہوئے فلسطینی گروپ کے ’منطقی اور قانونی‘ اقدامات کا دفاع کیا اور اسرائیلی افواج کے خلاف اس کے ’شدید دفاع‘ کو سراہا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا