ریپ کو معمولی سمجھنے والا معاشرہ ختم کیا جائے: اجتماعی زیادتی کا شکار خاتون

اس خاتون کے شوہر، ڈومینک پیلیکوٹ نے عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو نشہ آور دوا دی اور اجنبیوں کو اس وقت اپنے گھر بلایا جب وہ بے ہوش تھیں۔

جیزیل پیلیکوٹ 19 نومبر 2024 کو جنوبی فرانس کے شہر ایوگن میں عدالت میں تیسری بار پیش ہوئیں (اے ایف پی)

ییزیل پیلیکو نے ان درجنوں مردوں کی ’بزدلی‘ پر تنقید کی ہے جن پر الزام ہے کہ انہوں نے اس خاتون کے شوہر کی جانب سے اہتمام کردہ اجتماعی ریپ کا نشانہ بنایا۔ پیلیکو نے مطالبہ کیا ہے کہ ’مردانہ، پدرشاہی معاشرے کو ختم کیا جائے جہاں ریپ کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔‘

اس خاتون کے شوہر، ڈومینک پیلیکو نے عدالت میں اعتراف کیا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو نشہ آور دوا دی اور اجنبیوں کو اس وقت اپنے گھر بلایا جب وہ بےہوش تھیں، جبکہ مقدمے میں شامل 50 دیگر افراد میں سے اکثر نے ریپ سے انکار کیا ہے۔ فیصلہ 20 دسمبر کے آس پاس سنایا جائے گا۔

ییزیل پیلیکو، 72 سال کی عمر میں، اپنے ساتھ ہونے والے ظلم کے بارے میں اس وقت جان پائیں جب پولیس نے وہ ویڈیوز اور تصاویر دریافت کیں جو ان کے شوہر نے ان زیادتیوں کی ریکارڈ کی تھی، جنہیں منظم کرنے کا الزام ان کے شوہر پر ہے۔

ییزیل پیلیکو منگل کو جب جنوبی فرانس کے شہر ایوی نیون میں عدالت میں تیسری بار پیش ہوئیں تو انہوں نے کہا کہ ’میرے لیے، یہ بزدلی کا مقدمہ ہے۔‘ اس وقت بہت سے ملزمان عدالت میں موجود تھے۔

’معاشرے کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ ہم ایک مردانہ، پدرشاہی معاشرے میں رہتے ہیں جہاں زیادتی کو معمولی سمجھا جاتا ہے۔‘

اس گواہی نے کہ 26 سے 74 سال کی عمر کے درجنوں بظاہر عام مردوں، جو مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھتے تھے، نے ایک بےہوش خاتون کے ساتھ زیادتی کی، دنیا بھر میں خوف و ہراس پھیلا دیا، مظاہرے شروع ہو گئے اور مقدمے کو جنسی تشدد کے پھیلاؤ اور اس کے معاشرتی اثرات کے تفصیلی جائزے میں بدل دیا، جس کے نتیجے میں ییزیل پیلیکو ایک فیمنسٹ ہیرو بن گئیں۔

جو ویڈیوز ان کے شوہر نے ریکارڈ کیں اور گذشتہ ہفتوں کے دوران عدالت میں دکھائی گئیں، ان میں ییزیل پیلیکو کو بار بار بےحرکت، کبھی کبھی خراٹے لیتے ہوئے دکھایا گیا، جب کہ کچھ ملزمان نے جنوبی فرانسیسی شہر مازان میں خاندانی گھر میں ان کے ساتھ بدسلوکی کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کئی ملزمین نے عدالت کو بتایا کہ انہیں اس بات کا احساس نہیں تھا کہ وہ ان کا ریپ کر رہے ہیں، وہ ان کے ریپ کا ارادہ نہیں رکھتے تھے یا سارا الزام ان کے شوہر پر ڈال دیا، جن کے بارے میں انہوں نے کہا کہ اس نے انہیں پھنسایا۔

فرانسیسی قانون کے مطابق وہ بند کمرے میں مقدمے کی سماعت کا کہہ سکتی تھیں۔ اس کے بجائے، انہوں نے سرعام سماعت کا کہا اور امید ظاہر کی کہ اس سے دیگر خواتین کو بولنے اور یہ ظاہر کرنے میں مدد ملے گی کہ متاثرین کو شرمندہ ہونے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

انہوں نے منگل کو کہا، ’ریپ ریپ ہے۔‘ ییزیل پیلیکو نے ملزم کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ’جب آپ بیڈروم میں قدم رکھتے ہیں اور ایک بےحرکت جسم دیکھتے ہیں تو آپ کس موقع پر رد عمل ظاہر نہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ آپ فوری طور پر پولیس کو اس کی اطلاع دینے کے لیے وہاں سے چلے کیوں نہیں گئے؟‘

انہوں نے کہا کہ وہ اپنے شوہر کو کبھی معاف نہیں کریں گی۔ پیر کو ان کے دو بیٹوں نے عدالت کہا کہ انہیں سخت سزا دی جائے اور یہ بھی کہا کہ وہ انہیں کبھی معاف نہیں کریں گے اور وہ ان کے لیے مر چکے ہیں۔ ان کی بہن کا کہنا تھا کہ انہیں یقین ہے کہ ڈومینک پیلیکو نے انہیں بھی نشہ دیا اور بدسلوکی کا نشانہ بنایا۔

منگل کو بعد میں ڈومینک پیلیکو عدالت میں پیش ہوں گے۔ ان کی وکیل بیاترس ناوارو نے رپورٹروں کو بتایا کہ وہ ’بہت غمزدہ ہیں۔‘

 انہوں نے کہا ’اس نے جو کیا سو کیا۔ اس میں کوئی شک نہیں۔ لیکن ہمیں اب بھی یہ دیکھنا چاہیے کہ اس وقت، وہ بہت اکیلا ہے۔ وہ ہمیشہ بہت اکیلا رہے گا۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین