پروفیسر ڈس انفارمیشن سے نمٹنے میں اہم کردار ادا کر سکتے ہیں

اگر جامعات اپنے اساتذہ کو سوشل میڈیا کی تربیت دیں، انہیں سادہ زبان میں اظہار کرنا سکھائیں اور انہیں اپنی تحقیق عام پلیٹ فارمز تک لانے کا موقع دیں تو آہستہ آہستہ ہم ایک ایسا انٹرنیٹ دیکھ سکتے ہیں جہاں مستند معلومات موجود ہوں گی۔

17 جنوری 2024 کو لی گئی اس تصویر میں، طالب علم میانوالی یونیورسٹی کیمپس میں چہل قدمی کر رہے ہیں، جو کہ پاکستان کے سابق وزیر اعظم عمران خان کی حکومت کے دوران بنایا گیا ایک تعلیمی منصوبہ ہے (عامر قریشی / اے ایف پی)

اس وقت دنیا کو درپیش مسائل میں سے ایک بہت بڑا مسئلہ انٹرنیٹ پر غلط معلومات کی بھرمار ہے۔ اس مسئلے کی روک تھام کے لیے ہر سطح پر کام کیا جا رہا ہے۔ اقوامِ متحدہ سمیت بہت سے ادارے لوگوں کو انٹرنیٹ پر غلط اور گمراہ کن معلومات کی شناخت کرنے اور اسے آگے بڑھانے سے روکنے کے متعلق آگاہی فراہم کر رہے ہیں۔

تاہم، لوگوں کو انٹرنیٹ پر جتنی آسانی سے غلط معلومات ملتی ہیں، اتنی آسانی سے صحیح معلومات نہیں ملتیں۔ اس حوالے سے پروفیسر اور تحقیق کار ایک اہم کردار ادا کر سکتے ہیں کیونکہ وہ درست معلومات کا مستند ذریعہ ہوتے ہیں۔

انٹرنیٹ پر موجود غلط اور گمراہ کن معلومات کو دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے: مس انفارمیشن اور ڈس انفارمیشن۔ مس انفارمیشن ایسی غلط یا گمراہ کن معلومات کو کہتے ہیں جو غیر ارادی طور پر پھیلائی جاتی ہیں۔ اس قسم کی معلومات پھیلانے والے فرد یا ادارے کا مقصد دھوکہ دینا نہیں ہوتا، وہ لاعلمی یا غلط فہمی کے باعث یہ معلومات آگے بڑھاتے ہیں۔

ڈس انفارمیشن دانستہ طور پر پھیلائی جانے والی غلط معلومات کو کہتے ہیں۔ ایسی معلومات کا مقصد کسی فرد، گروہ یا معاشرتی نظام کو نقصان پہنچانا یا گمراہ کرنا ہوتا ہے۔ ڈس انفارمیشن عام طور پر سیاسی، سماجی یا نظریاتی مقاصد کے لیے تیار کی جاتی ہے۔ ایسی معلومات منظم طریقے سے عوامی رائے پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتی ہیں۔

ابلاغِ عامہ کے دور میں دونوں اقسام کی معلومات کی روک تھام ایک چیلنج بن چکی ہے اور ان کے اثرات نہ صرف انفرادی سطح پر بلکہ قومی اور عالمی سطح پر بھی گہرے ہوتے ہیں۔ غلط اور گمراہ کن معلومات کی روک تھام پر کام کرنے والے افراد یا ادارے اس کی ساری ذمہ داری لوگوں پر عائد کر دیتے ہیں۔ وہ لوگوں کو ایسی معلومات کی شناخت کرنا سکھاتے ہیں اور انہیں آگے پھیلانے سے رکنے کا کہتے ہیں۔ لیکن یہ اس مسئلے کا واحد حل نہیں ہے۔ لوگوں کو غلط اور گمراہ کن معلومات بآسانی مل رہی ہیں لیکن صحیح معلومات ڈھونڈنے سے بھی نہیں مل رہیں اور ان کے پاس صحیح معلومات ڈھونڈنے کا وقت بھی نہیں ہے۔

اس لیے غلط معلومات سے بچنے کی ساری ذمہ داری لوگوں پر عائد نہیں کی جا سکتی۔ اس کے لیے سرکاری اور غیر سرکاری اداروں سمیت میڈیا اور جامعات کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ اس حوالے سے پروفیسروں کے کردار کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ پروفیسر بہت زیادہ تحقیق کرتے ہیں۔ اس تحقیق کی بنیاد پر وہ تحقیقی مقالے لکھتے ہیں جو بہترین جرنلز میں چھپتے ہیں۔ علاوہ ازیں، وہ بہت سی کتابیں پڑھنے کے ساتھ ساتھ بہت سی کتابیں لکھتے بھی ہیں۔ وہ بہترین دماغوں کے ساتھ کام کرتے ہیں اور اپنی ذاتی نشستوں میں بھی ان دماغوں کے ساتھ دنیا کو درپیش مسائل پر بات کرتے ہیں۔

لیکن یہ سارا علم اور بحث و مباحثہ ان کی ذاتی اور پیشہ ورانہ محافل اور جرنلز تک محدود رہتے ہیں۔ عام لوگ نہ ان جرنلز کی بھاری بھرکم فیس ادا کر سکتے ہیں اور نہ ان جرنلز میں چھپنے والے مقالوں کی مخصوص مشکل زبان پڑھ سکتے ہیں۔ یہ سارا علم پروفیسروں اور تحقیق دانوں کے حلقوں تک ہی محدود رہتا ہے اور باہر نہیں جا پاتا۔

لوگ آسانی سے ملنے والے معلومات کے ذرائع پر انحصار کرتے ہیں۔ پہلے ہر گھر میں اخبار آتے تھے، ٹیلی ویژن چلتے تھے، لوگ صحافیوں کی جانب سے کسی حد تک تصدیق شدہ معلومات حاصل کر پاتے تھے۔ اب ان کی زندگی ان کے ہاتھ میں موجود اسمارٹ فون میں سمٹ چکی ہے۔ وہ اپنی تمام معلومات اس فون میں موجود مختلف ایپس سے حاصل کرتے ہیں۔ ان ایپس پر کون مواد بنا رہا ہے، اس مواد کی صداقت کیا ہے، اس مواد کو آگے پھیلانے سے وہ اپنا اور دوسروں کا کیا نقصان کر رہے ہیں، انہیں اس کا نہ ادراک ہوتا ہے نہ وہ اس بات کی پروا کرتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پروفیسر اپنے شعبے میں ماہر ہونے کے باوجود اپنا علم لوگوں میں نہیں بانٹ پاتے۔ اس کی ایک بڑی وجہ ان کی بےحد مصروفیت اور اس کے باعث ٹیکنالوجی میں ہونے والی تبدیلیوں سے انجان ہونا ہے۔ انہیں سوشل میڈیا استعمال کرنا اور اس پر لوگوں تک پیغام پہنچانا نہیں آتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ نااہل ہوتے ہیں۔ وہ اپنے کام میں اس قدر مصروف ہوتے ہیں کہ اگر یہ ان کا شعبہ نہیں ہے تو انہیں اس بارے میں معلومات حاصل کرنا وقت کا زیاں لگتا ہے۔ انہیں ہر ہفتے کم از کم نو گھنٹے لیکچر دینے ہوتے ہیں۔ لیکچر بنانے اور اس کی تیاری کرنے میں اس سے زیادہ وقت درکار ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ ان کی اپنی تحقیق بھی چل رہی ہوتی ہے۔ اس میں ان کا بقیہ دن اور آدھی رات صرف ہو جاتی ہے۔ اس کے علاوہ انہیں طالب علموں کی تحقیق میں مدد کرنی ہوتی ہے۔ اس کے لیے بمشکل وقت نکالنا پڑتا ہے۔ ایسے میں انہیں دنیا کی زیادہ خبر نہیں رہتی۔

ان کے سوشل میڈیا پر اکاؤنٹ ہوتے ہیں لیکن وہ ان کا استعمال کرنا نہیں جانتے۔ اگر وہ ان پلیٹ فارمز کا استعمال سیکھیں اور وہاں لوگوں کو اپنے شعبے سے متعلق ہی درست معلومات فراہم کرنا شروع کریں تو وہ دنیا کے اس سنگین مسئلے سے نمٹنے میں کافی مدد کر سکتے ہیں۔

اور ایسا کرنا صرف لوگوں یا دنیا کی ضرورت نہیں ہے، یہ ان کی اپنی بھی ضرورت ہے۔ بہت سے جرنل اب انہیں اپنی تحقیق کو مختلف اخبارات، جرائد یا ویب سائٹس پر بلاگز کی صورت میں شائع کرنے کا کہتے ہیں۔ اس سے ان کی تحقیق زیادہ لوگوں تک پہنچتی ہے اور ان کا علم بوریت سے بھرے جرائد میں محدود ہونے سے بچ جاتا ہے۔

اگر جامعات اپنے اساتذہ کو سوشل میڈیا کی تربیت دیں، انہیں سادہ زبان میں اظہار کرنا سکھائیں اور انہیں اپنی تحقیق عام پلیٹ فارمز تک لانے کا موقع دیں تو آہستہ آہستہ ہم ایک ایسا انٹرنیٹ دیکھ سکتے ہیں جہاں سنسنی خیز معلومات کے مقابلے میں مستند معلومات بھی موجود ہوں گی۔ غلط اور گمراہ کن معلومات کا بہترین توڑ صرف اور صرف صحیح، مصدقہ اور سمجھ میں آنے والی معلومات ہیں، اور اس کا بہترین ذریعہ ہمارے پروفیسر ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ