یہ کہنا کوئی نئی بات نہیں کہ زیادہ تر شادی شدہ جوڑے ایک شادی (monogamy) کے تصور کی حمایت کرتے ہیں مگر عملی طور پر اکثر اس معیار پر پورا نہیں اُترتے۔
اس (بے وفائی) کا نتیجہ تقریباً ہمیشہ تباہ کن ہوتا ہے جیسا کہ لاکھوں افراد گواہی دے سکتے ہیں۔ حال ہی میں نئی بیسٹ سیلر بننے والی کتاب The Secrets of Surviving Infidelity کے مصنف ڈاکٹر سکاٹ ہالٹزمین نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ جوڑوں کو اس بربادی سے نکال کر دوبارہ اپنے رشتے کو پھلنے پھولنے میں مدد کریں۔
کتاب پڑھنے کے بعد اور امریکہ میں مقیم ماہر نفسیات ڈاکٹر سکاٹ ہالٹزمین سے زوم پر بات کرنے سے پہلے میرا یہ تاثر مضبوط ہوا ہے کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جن کی اخلاقی حدود اس آزاد خیال دور میں بھی غیر مبہم اور مضبوط ہیں خصوصاً ان لوگوں کے مقابلے میں جو نئی طرز کی آزاد محبت اور ایک سے زیادہ تعلقات کے قائل ہیں۔
ڈاکٹر سکاٹ ہالٹزمین ان لوگوں کے لیے سخت رویہ رکھتے ہیں جو اپنی بے وفائی کا الزام اپنے شریک حیات یا بچپن کی تلخ یادوں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ وہ واضح کرتے ہیں کہ یہ کتاب ان بے وفا افراد کے لیے ہے جو واقعی اپنے تعلق کو ختم نہیں کرنا چاہتے اور یہ ان دھوکہ کھائے شریک حیات کے لیے بھی ہے جو اپنے بے وفا ساتھی کو معاف کرنے کے لیے طاقت اور محبت رکھتے ہیں۔
ان کی کتاب کی پہلی اشاعت کو 12 سال ہو چکے ہیں لیکن رشتے ٹوٹنے کی ایک بنیادی وجہ آج بھی بے وفائی ہی ہے۔
مختلف تحقیقی مطالعات کے مطابق ایک چوتھائی سے نصف طلاقوں کی وجہ کسی ایک فریق کی بے وفائی ہوتی ہے اور اعداد و شمار کے لحاظ سے مرد زیادہ تر اس کے مرتکب پائے جاتے ہیں۔
ستم ظریفی ہے کہ دوسری شادیاں پہلی شادیوں کی نسبت زیادہ ٹوٹتی ہیں جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ لوگ اپنی غلطیاں دہراتے رہتے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ کیا 65 سالہ ہالٹز مین سمجھتے ہیں کہ سوشل میڈیا نے ’بے وفائی کی وبا‘ کو مزید بڑھا دیا ہے؟
وہ کہتے ہیں کہ بے وفائی کی نوعیت گذشتہ 200 سالوں سے زیادہ نہیں بدلی لیکن نئی نسل کا رویہ ’کمٹمنٹ اور ذمہ داری‘ کے تصور کے بارے میں ضرور بدل چکا ہے۔ وہ اسے یوں بیان کرتے ہیں: ’میں صرف اسی وقت تک کمٹڈ رہوں گا جب تک شرائط میرے لیے موزوں ہیں۔‘ وہ کہتے ہیں کہ یہی رویہ ملینیئلز اور جنریشن زی کے رویوں میں بھی پایا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ اب جب کہ کم لوگ شادی کر رہے ہیں پھر بھی طلاق کی شرح تقریباً وہی ہے۔ ان سب باتوں کے باوجود یا شاید انہی کی وجہ سے، ہم ان جوڑوں سے بہت متاثر ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کے ساتھ لمبے عرصے تک رہتے ہیں، چاہے ہمیں یہ اندازہ نہ ہو کہ ایسا رشتہ نبھانے کے لیے کتنی محنت کرنی پڑتی ہے۔
آج کل کے اس رجحان کو مانتے ہوئے جس میں کچھ لوگ بیک وقت کئی تعلقات کو اخلاقی طور پر درست سمجھتے ہیں، وہ کہتے ہیں: ’میں نے بہت کم ایسے جوڑے دیکھے ہیں جو ایک سے زیادہ جنسی ساتھی رکھتے ہیں مگر پھر بھی جذباتی طور پر اپنے شریک حیات سے مکمل طور پر جڑے رہتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ایسے بہت کم لوگ ہیں ایک وقت میں کئی رشتے رکھ کر خوش رہتے ہیں مگر وہ ایسے بات کرتے ہیں جیسے یہ طریقہ سب کے لیے بہت اچھا ہے۔
ہالٹزمین ایک اہم مشورہ یہ دیتے ہیں کہ جو جوڑے صدمے کی حالت میں مدد لینے آتے ہیں وہ اپنے تھراپسٹ سے ضرور پوچھیں کہ وہ خود کتنی بار شادی کر چکے ہیں۔
وہ یہ بھی خبردار کرتے ہیں کہ اکثر تھراپسٹ صرف انفرادی مشاورت کی تربیت رکھتے ہیں مگر وہ جوڑوں کی تھراپی ’بطور مجبوری‘ کرنے لگتے ہیں جو کہ وہ ہمیشہ بہتر طریقے سے نہیں کر پاتے۔ وہ ورک کوچز کی مثال دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ اگر کسی کو اپنی نوکری پسند نہ ہو تو سب سے مناسب جواب یہ نہیں ہوتا کہ ’تو پھر نوکری کیوں نہیں چھوڑ دیتے؟‘
بلکہ اس سے کہیں بہتر پہلا سوال یہ ہو سکتا ہے ’چلیں، پہلے یہ سمجھتے ہیں کہ آپ جس ماحول میں کام کر رہے ہیں، اسے بہتر کیسے بنایا جا سکتا ہے؟‘ ان کے لیے شادی کے مشورے بھی یہی اصول اپنائے جانے چاہیں جیسے رشتہ کی نوعیت کو دیکھیں اور پھر یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ اسے بہتر اور آسان کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
ہالٹز مین کے مطابق معالج کو بے وفائی اور اس کے اثرات کی گہری سمجھ ہونی چاہیے، نہ کہ صرف مریض کے بچپن کی کھوج لگانا۔ وہ کہتے ہیں: ’تھراپی کے دوران وقت کم ہوتا ہے اور لوگ یہ جاننے نہیں آتے کہ ان کا بچپن کیسا تھا بلکہ یہ سمجھنے آتے ہیں کہ وہ آج رات یا کسی بھی رات اس شخص کے ساتھ ایک ہی بستر پر سو سکتے ہیں؟‘
یہ کہنا درست ہوگا کہ ہالٹزمین کا طریقہ کافی سخت ہے۔ ان کے مطابق بے وفا شوہر/بیویوں کو اکثر جو چیز لاحق ہوتی ہے وہ ’فلیم ایڈیکشن‘ (flame addiction) ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ اپنی جذباتی یا جنسی مہمات سے حاصل ہونے والے آکسیٹوسن، ڈوپامین اور سیروٹونن ہارمونز کے عادی ہو جاتے ہیں۔
وہ زیادہ استعمال ہونے والی اصطلاحات جیسے ’محبت یا جنسی لت‘ کو ناپسند کرتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ اصطلاحات ایک ’جواز‘ کے طور پر استعمال کی جا سکتی ہیں، جہاں ’جنسی لت کے مریض‘ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی ایک مجبوری ہے جسے وہ کنٹرول نہیں کر سکتے۔ اس کے برعکس، فلیم ایڈیکشن اکثر الکوحل اور منشیات جیسے نشے کی لت کے ساتھ جڑی ہوتی ہے جس سے وہ اپنے جذبات یا جسمانی طور پر دوسروں کے قریب آ جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
حیرت انگیز طور پر وہ کتاب میں جنسی تعلقات پر بہت کم بات کرتے ہیں، کتاب میں اس کا ذکر صرف صفحہ 200 اور 300 کے آس پاس نمایاں طور پر آتا ہے۔
یہ بات حیران کن ہے کیونکہ اکثر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ میاں بیوی کے درمیان جنسی خواہش (libido) میں فرق ہی بے وفائی کی بڑی وجہ ہوتا ہے۔
اگرچہ ہالٹزمین مانتے ہیں کہ جنسی محرومی انسان کو رشتے سے باہر تعلقات کی طرف مائل کر سکتی ہے لیکن وہ اس بات پر زور دیتے ہیں کہ ایسے حالات میں ناراض یا مایوس شریک حیات کو چاہیے کہ وہ کھل کر اپنے پارٹنر سے جنسی تعلق کی خواہش کا اظہار کرے اور اس بارے میں بات چیت کرے کیونکہ یہ تعلق کا ایک اہم حصہ ہے۔
وہ ان تھراپسٹس پر تنقید کرتے ہیں جو صرف اپنے ساتھی کی تعریفیں کرنے، ان کو خوش کرنے یا خود کو زیادہ پرکشش بنانے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ خواہش یا شہوت کا تعلق ان چیزوں سے نہیں ہوتا۔ وہ کہتے ہیں کہ اکثر کم جنسی رغبت والے شریک حیات کو محض قربت کے دوران ہی جنسی جذبہ محسوس ہوتا ہے۔
ایک مشکل مسئلہ جس پر ہالٹز مین کھل کر بات کرتے ہیں، وہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے خوبصورت دوستوں، خاص طور پر مخالف جنس کے دوستوں کے ساتھ بہت زیادہ وقت گزارے۔ یہ ان کے کلینک میں اکثر بحث کا موضوع بنتا ہے اور کئی شادیوں میں تناؤ کی بڑی وجہ ہوتا ہے۔
اس بارے میں وہ سخت مؤقف بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں: ’بہت سے سمجھ دار اور آزاد خیال لوگ یہ سوچتے ہیں کہ میں کسی بھی مرد یا عورت کے ساتھ گہرا اور جذباتی تعلق رکھ سکتا ہوں کیونکہ میں اپنی حدود کا خیال رکھ سکتا ہوں اور مجھے اپنے شریک حیات کی تشویش کی وجہ سے ایسے تعلقات ترک نہیں کرنے چاہییں۔ لیکن ہالٹز مین کہتے ہیں کہ یہ سوچ حقیقت کے برعکس اور سادہ لوحی ہے۔
مصنف کا کہنا ہے کہ اپنے قریبی دوستوں اپنے شریک حیات کو بھی ملوائیں تاکہ وہ بھی انہیں اچھی طرح جان سکے۔ کچھ لوگ سوچتے ہیں کہ اگر شوہر بیوی کے درمیان اعتماد ہو تو مسئلہ نہیں ہوگا لیکن ہالٹز مین کہتے ہیں کہ مسئلہ دوست کی طرف سے بھی ہو سکتا ہے اور بعض اوقات دفتر کے ساتھی بھی قابل اعتبار نہیں ہوتے۔
اکثر شوہر یا بیوی کو شروع میں اندازہ ہی نہیں ہوتا کہ کوئی ان پر خاص توجہ دے رہا ہے اور جب سمجھ آتی ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
لیکن اگر سب سے برا ہو چکا ہو؟ یعنی آپ یا آپ کے شریک حیات کا کسی سے افیئر چل رہا ہو اور آپ کی شادی بکھرنے کے قریب ہو؟ ہالٹز مین یہاں بھی دو ٹوک موقف بیان کرتے ہیں۔ ان کا سب سے سخت اصول یہ ہے کہ جس سے افیئر تھا، اس سے ہر قسم کا تعلق فوراً اور مکمل طور پر ختم کیا جائے۔ ہالٹز مین یہاں ایک سیدھا اور دوٹوک پیغام لکھنے کا نمونہ بھی دیتے ہیں، جو آپ اس شخص کو بھیج سکتے ہیں جو یہ ہے: ’میں یہ پیغام اپنے شریک حیات کے ساتھ بیٹھ کر لکھ رہا ہوں۔ میں تم سے دوبارہ نہیں مل سکتا۔
’مجھے اپنی شادی کو بچانا ہے۔ برائے مہربانی مجھ سے دوبارہ رابطہ نہ کرنا۔ خوش رہو۔ دوبارہ رابطہ نہ کرنا۔‘ (پیغام میں بات کو دہرانے کا مقصد یہ ہے کہ ہدایت بالکل واضح اور حتمی ہو جائے۔)
ان کی دوسری تجویز یہ ہے کہ بے وفائی کرنے والے فریق کو اپنا فون، ای میل اور سوشل میڈیا حتیٰ کہ پاس ورڈز بھی شریک حیات کو دینا ہوں گے۔ صرف وعدے کرنا کافی نہیں، آپ کو عمل سے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ آپ واقعی ان وعدوں پر قائم ہیں۔
مختصراً،جس شخص نے بے وفائی کی ہے، اُسے اپنی غلطی کی پوری ذمے داری لینا ہوگی، سچ سچ بتانا ہوگا کہ کیا ہوا، چاہے سچ بتانا کتنا ہی مشکل کیوں نہ ہو مثلاً اگر شریک حیات پوچھے: ’تم نے کتنی بار جسمانی تعلق قائم کیا؟‘ تو اس کا جواب دینا ہوگا۔
اس کے علاوہ، اسے اپنی شادی کو دوبارہ مضبوط بنانے کے لیے وقت، محنت اور جذباتی طور پر حاضر رہ کر بھرپور کوشش کرنا ہوگی۔ یہ عمل آسان نہیں ہوگا، بیچ میں کچھ پیچھے ہٹنے والے لمحے بھی آئیں گے لیکن اگر آپ واقعی معافی اور رشتے کی بحالی چاہتے ہیں تو اس کے لیے مسلسل محنت درکار ہے۔
دوسری طرف جس فریق کے ساتھ بے وفائی ہوئی ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ مسلسل الزام تراشی سے باز رہے اور شریک حیات کو شادی کی طرف واپس لانے کی کوشش کرے۔ ہالٹز مین کہتے ہیں کہ مشکل باتوں کو کرتے وقت ’تم‘ جیسے الفاظ کو نکال دینا چاہیے۔ یعنی یہ مت کہیں: ’تم نے مجھے غصہ دلایا جب تم نے میری بات نہ سنی‘ بلکہ یوں کہیں: ’مجھے یہ بات تکلیف دیتی ہے جب کوئی میری بات نہیں سنتا۔‘
ہالٹز مین (اور کئی دوسرے ماہرین) یہ نہیں کہتے کہ اگر کسی کے ساتھ بے وفائی ہوئی ہے تو اُس کی اپنی غلطی بھی ہو سکتی ہے۔ وہ الزام تراشی پر یقین نہیں رکھتے۔ جوں جوں میں کتاب آگے پڑھتی گئی، مجھے ان کا سچ اور صاف مؤقف اچھا لگنے لگا۔
یہاں یہ نہیں کہا گیا کہ ’شادی دونوں کی غلطی سے ٹوٹتی ہے‘ بلکہ صاف کہا گیا ہے کہ بے وفائی شادی کو سب سے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے۔ اور مشورے کا مقصد یہی ہونا چاہیے کہ اس دکھ کو کیسے ٹھیک کیا جائے اور رشتہ کیسے بچایا جائے۔
ہالٹز مین کا طریقہ علاج کچھ پرانے وقتوں کی سخت مگر محبت بھری نصیحت جیسا لگتا ہے۔ وہ بار بار کہتے ہیں کہ وہ لوگوں کو شرمندہ کرنے یا الزام دینے کی کوشش نہیں کرتے۔
ان کا ماننا ہے کہ بے وفائی اکثر اس لیے ہوتی ہے کیونکہ لوگ اپنی پوری توجہ اور توانائی اپنے رشتے میں نہیں لگاتے۔
ایک ماہر کا کہنا ہے کہ ایک عام ناجائز تعلق ہفتے میں تقریباً 15 گھنٹے لیتا ہے۔ ہالٹز مین کہتے ہیں کہ اگر آپ یہی وقت اپنی شادی پر لگائیں جیسے ساتھ کھانا پکانا، چہل قدمی کرنا یا کوئی پسندیدہ پروگرام دیکھنا تو رشتہ بہتر ہو سکتا ہے۔
لیکن کتاب کے آخر میں جو بات سب سے زیادہ دل کو لگی، وہ یہ تھی: ’ہمیں اکثر سکھایا جاتا ہے کہ دوسروں کے ساتھ ویسا سلوک کرو جیسا ہم چاہتے ہیں کہ وہ ہمارے ساتھ کریں۔ اس امید پر کہ وہ بھی بدلے میں ایسا ہی کریں گے۔
© The Independent