ایران نے پیر کو امریکہ کے ساتھ کسی بھی ممکنہ جوہری معاہدے کے حصے کے طور پر یورینیم کی افزودگی کو معطل کرنے کو مسترد کر دیا ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا کے مطابق ایرانی وزارت خارجہ کے ترجمان اسماعیل بکائی سے تہران میں پریس بریفنگ کے دوران اس امکان کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ معلومات ایک تصوراتی اور سراسر غلط ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن کے ساتھ چھٹے دور کی بات چیت کے لیے ابھی تک کوئی تاریخ طے نہیں کی گئی ہے۔
واشنگٹن اور تہران کے درمیان ہونے والے مذاکرات کا مقصد ایران کے جوہری عزائم پر دہائیوں سے جاری تنازع کو حل کرنا ہے اور دونوں فریقوں نے ایران کے یورینیم کی افزودگی کے معاملے پر عوام میں سخت مؤقف اختیار کیا ہے۔
ان اطلاعات کے بارے میں پوچھے جانے پر کہ ایران کسی معاہدے تک پہنچنے کے لیے تین سال کے لیے افزودگی کو منجمد کر سکتا ہے، ترجمان اسماعیل باغی نے کہا کہ ’ایران اسے کبھی قبول نہیں کرے گا۔
اس سے قبل امریکی صدر صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اتوار کو اشارہ دیا تھا کہ ایران کے ایٹمی پروگرام پر پیش رفت ہوئی ہے اور آئندہ ’دو دنوں میں‘ کوئی اعلان ہو سکتا ہے۔
ٹرمپ خاصے پرامید نظر آئے جو جوہری معاملے میں امریکہ اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کرنے والے عمان کے اندازے سے مختلف ہے۔ عمان نے جمعے کو کہا کہ روم میں امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کے پانچویں دور میں ’کچھ، لیکن غیر حتمی حتمی ‘ پیش رفت ہوئی۔
ٹرمپ نے شمالی نیو جرسی میں اپنے گالف کلب جہاں انہوں نے ویک اینڈ کا زیادہ تر وقت گزارا، سے روانگی کے بعد صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ہماری ایران کے ساتھ بہت ہی اچھی بات چیت ہوئی۔ مجھے نہیں معلوم کہ اگلے دو دن میں میں آپ کو کچھ اچھا بتاؤں گا یا برا، لیکن مجھے محسوس ہو رہا ہے کہ شاید میں آپ کو کچھ اچھا بتاؤں گا۔‘
انہوں نے زور دے کر کہا کہ ’ہفتے اور اتوار کو ہونے والی بات چیت میں واقعی کچھ پیش رفت ہوئی ہے، سنجیدہ پیش رفت۔‘
ٹرمپ نے کہا: ’دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے، لیکن میرا خیال ہے کہ ایران کے معاملے پر کچھ اچھی خبر آ سکتی ہے۔‘
امریکی وفد کی نمائندگی مشرق وسطیٰ کے لیے ایلچی سٹیو وٹکوف اور محکمہ خارجہ کے پالیسی پلاننگ ڈائریکٹر مائیکل اینٹن نے روم میں عمانی سفارت خانے میں ہونے والے مذاکرات میں کی۔
امریکہ اور ایران اس بات پر بات چیت کر رہے ہیں کہ ایران کے ایٹمی پروگرام کو کس طرح محدود کیا جائے، جس کے بدلے میں امریکہ ایران پر عائد کچھ اقتصادی پابندیاں ختم کر دے گا۔
ایران اور امریکہ کے درمیان جوہری مذاکرات کا پس منظر پیچیدہ ہے اور اس کی کئی جہتیں ہیں۔ یہاں کچھ اہم نکات درج ہیں
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1. نظریاتی اختلافات: امریکہ اور ایران کے درمیان نظریاتی اختلافات نے مذاکرات کو مشکل بنایا ہے۔ ایران کی قیادت نے کئی بار امریکہ کے ساتھ مذاکرات کو مشکوک قرار دیا ہے، جیسا کہ رہبر معظم انقلاب نے حال ہی میں کہا کہ امریکی صدر کا مذاکرات کے لئے آمادگی کا اعلان ’رائے عامہ کو گمراہ کرنے‘ کی چال ہے۔
2. جوہری معاہدہ: 2015 میں ایران نے عالمی طاقتوں (جس میں امریکہ بھی شامل تھا) کے ساتھ جوہری معاہدہ کیا تھا جسے مشترکہ جامع اقدام منصوبہ (JCPOA) کہا جاتا ہے۔ اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے جوہری پروگرام کو محدود کرنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، بدلے میں بین الاقوامی پابندیاں ہٹائی گئیں۔
3. امریکی انخلا: 2018 میں امریکہ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے نکلنے کا فیصلہ کیا اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دیں، جس کے بعد مذاکرات کا سلسلہ رک گیا۔
4. حالیہ پیش رفت: مذاکرات کے دوبارہ آغاز کی کوششیں کی گئی ہیں، لیکن دونوں طرف سے لچک کی کمی اور باہمی اعتماد کی کمی نے ان کو متاثر کیا ہے۔ ایران کی قیادت نے امریکہ کی دھمکیوں اور پابندیوں کے خلاف سخت موقف اختیار کیا ہے۔
5. علاقائی اثرات: یہ مذاکرات صرف ایران اور امریکہ کے درمیان نہیں، بلکہ پورے مشرق وسطیٰ میں بھی اہم اثرات مرتب کرتے ہیں۔ ایران کی جوہری صلاحیتوں پر خدشات کی وجہ سے علاقائی طاقتیں بھی متوجہ ہیں، جیسے کہ اسرائیل اور عرب ممالک۔
یہ مذاکرات ایک پیچیدہ سیاسی اور تاریخی پس منظر میں ہو رہے ہیں، جو عالمی سطح پر اہمیت رکھتے ہیں۔