ایران کا جوہری مذاکرات میں ’مثبت پیش رفت‘ کا دعویٰ

تہران کے چیف مذاکرات کار علی باغیری نے ایرانی خبررساں ادارے ارنا کو بتایا: ’فریقین ان معاملات پر اتفاق رائے پر پہنچنے والے ہیں جو ایجنڈے میں ہونے چاہییں۔‘

جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے چیف مذاکرات کار   علی باغیری 29 مئی 2021  کو ایران کی ہائی کونسل فار ہیومن رائٹس کے اجلاس میں شریک ہیں، جس کے وہ نائب سیکرٹری بھی ہیں۔     ( اے ایف پی،ہینڈ آؤٹ، ایرانی ہائی کونسل فار ہیومن رائٹس)

جوہری معاہدے میں واپسی کے لیے ایران کے چیف مذاکرات کار نے ایک ایسے وقت میں ’مثبت پیش رفت‘ کا عندیہ دیا ہے جب ایران کو خبردار کیا گیا ہے کہ ویانا میں جاری مذاکرات اس کے لیے ’آخری موقع‘ ہے، جبکہ سیٹلائٹ تصاویر سے یہ بھی ظاہر ہوا ہے کہ ایران خلائی لانچ کی تیاری کر رہا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق 2015 میں ایران اور مغربی طاقتوں کے درمیان طے پانے والے جوہری معاہدے کی بحالی کے لیے ایران اور دیگر ممالک کے درمیان مذاکرات کا ایک بار پھر آغاز ویانا میں جمعرات کو ہوا۔

2018 میں سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ کو معاہدے سے نکال لیا تھا۔ موجودہ صدر جو بائیڈن نے کہا ہے کہ ان کی انتظامیہ معاہدے میں واپس شامل ہونے کو تیار ہے، تاہم امریکی عہدیدار نے ایران پر الزام لگایا ہے کہ وہ رواں سال مذاکرات میں ہونے والی پیش رفت سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔ دوسری جانب ایرانی عہدیداروں کا اصرار ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ ہیں۔

تہران کے چیف مذاکرات کار علی باغیری نے اتوار کو ایرانی خبررساں ادارے ارنا کو بتایا: ’فریقین ان معاملات پر اتفاق رائے پر پہنچنے والے ہیں، جو ایجنڈے میں ہونے چاہییں۔‘

ان کا کہنا تھا: ’یہ ایک مثبت اور اہم پیش رفت ہے، کیونکہ شروع میں تو دونوں میں اتفاق ہی نہیں تھا کہ کن معاملات پر مذاکرات کرنے ہیں۔‘

علی باغیری کا بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا جب اتوار کو ہی جی سیون نے خبردار کیا تھا کہ معاہدے پر اتفاق کے لیے ایران کے پاس وقت ختم ہوتا جا رہا ہے۔

برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹرس نے کہا تھا کہ ویانا میں مذاکرات ایران کے لیے ’سنجیدہ عزم کے ساتھ مذاکرات کی میز پر آنے کا آخری موقع ہیں۔‘

یہ پہلی بار تھا کہ اصل معاہدے پر دستخط کرنے والے کسی فریق نے مذاکرات کے لیے الٹی میٹم دیا ہوا۔

2015 میں طے پانے والے معاہدے کا مقصد ایران کو جوہری بم بنانے سے روکنا تھا۔ ایران ہمیشہ ایسے کسی ہدف کی تردید کرتا آیا ہے۔ معاہدے میں ایران کو پابندیوں میں نرمی کے بدلے میں اپنے جوہری پروگرام پر پابندیوں کے ساتھ ساتھ اسے اقوام متحدہ کی کڑی نگرانی میں لانا تھا۔

باغیری کا کہنا ہے کہ جون میں اقتدار میں آنے والی نئی ایرانی انتظامیہ نے اپنی پیش رو انتظامیہ کی جانب سے پیش کیے گئے معاملات کے علاوہ بھی مذاکرات کے لیے اضافی پوائنٹ شامل کیے ہیں۔

ایران سابق صدر ٹرمپ کی معاہدے سے دستبرداری کے بعد لگنے والی پابندیوں کا خاتمہ چاہتا ہے، مگر صدر بائیڈن کی انتظامیہ نے کہا ہے کہ وہ صرف جوہری پروگرام پر لیے گئے سابق صدر کے اقدامات پر مذاکرات کرے گی، انسانی حقوق اور اس جیسے دیگر معاملات پر لیے گئے اقدامات پر نہیں۔

ایران نے مذاکرات میں دو مسودے پیش کیے ہیں، ایک پابندیوں کے حوالے سے اور ایک اس کی جوہری سرگرمیوں کے حوالے سے۔

علی باغیری نے کہا: ’دوسرے فریقوں کے ساتھ ہم مشترکہ طور پر (بات چیت کے لیے نکات) کا جائزہ لیتے ہیں تاکہ اختلافات کو حل کیا جا سکے اور ایجنڈا ایک حتمی فریم ورک میں قائم ہو سکے۔‘

خلائی لانچ کی تیاری؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دوسری جانب جہاں ویانا میں مذاکرات جاری ہیں وہیں سیٹلائٹ تصاویر اور ایک ماہر کے مطابق ایسا ظاہر ہورہا ہے کہ ایران ایک خلائی لانچ کی تیاریاں کر رہا ہے۔  

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق پلینٹ لیبز سے حاصل کردہ سیٹلائٹ تصاویر میں ایران کے صوبہ سمنان میں امام خمینی سپیس پورٹ پر سرگرمیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ تصاویر میں ایک دیوہیکل کرین کو دیکھا جا سکتا ہے جو اکثر لانچ پیڈ پر راکٹ کے ساتھ ہی پائی جاتی ہے۔ اس کے برابر میں ایک سپورٹ وہیکل ہے جسے پہلے خلائی لانچوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ تصاویر میں ایک ہائیڈرولک کرین پر ایک پلیٹ فارم بھی نظر آیا جو ممکنہ طور پر راکٹ کی سروسنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

حالیہ دنوں میں اے پی کی جانب سے حاصل کی گئی مزید تصاویر میں سپیس پورٹ پر اور بھی سرگرمیاں دیکھی گئی ہیں، جیسے گاڑیوں کی بڑھتی تعداد کو اکثر کسی راکٹ کے لانچ سے پہلے ہوتا ہے۔

ایرانی سرکاری میڈیا میں سپیس پورٹ پر بڑھتی سرگرمیوں پر کوئی بات نہیں ہوئی، جبکہ اقوام متحدہ میں ایرانی مشن نے تبصرے کی درخواست پر جواب نہیں دیا۔ خلائی لانچز پر نظر رکھنے والی امریکی فوج نے بھی تبصرے کی درخواست پر کوئی جواب نہیں دیا۔

امریکہ میں جیمز مارٹن سینٹر فار نان پرولیفریشن میں ایران کے پروگرام پر تحقیق کرنے والے ماہر جیفری لوئس نے کہا: ’یہ سب کسی لانچ سے پہلے ہونی والی سرگرمیوں سے مشابہت رکھتا ہے۔‘

ان کے بقول یہ ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کی خلا پر نئے سرے سے توجہ کی نشاندہی کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ 2015 کے معاہدے میں ایران کو شامل کرنے والے سابق صدر حسن روحانی کے عہدے سے جانے کے بعد ایران کی نئی سخت گیر حکومت کو ایسے ممکنہ لانچ کرکے مذاکرات پر اثرانداز ہونے کی تشویش نہیں۔

لوئس نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں نئے صدر کی دلچسپی کی وجہ سے ایران کے خلائی پروگرام میں تیزی آ سکتی ہے۔ ’انہیں ایران کے معاہدے کی اتنی پریشانی نہیں، جتنی روحانی کو تھی۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا