ایرانی جوہری پروگرام پر مذاکرات: امریکہ اسرائیل کا فوجی مشقوں پر غور

ایک سینئیر امریکی عہدیدار نے بتایا کہ ان ممکنہ فوجی مشقوں کا مقصد سفارت کاری کی ناکامی اور ممکنہ بدترین حالات میں ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔

میکسار ٹیکنالوجیز کی فراہم کردہ آٹھ جنوری 2020 کی اس تصویر میں ایرانی شہر قم کے قریب واقع فردو فیول انرچمنٹ پلانٹ کو دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی/ فائل)

امریکہ اور اسرائیل کے وزائے دفاع جمعرات کو ایران کے جوہری پروگرام پر جاری مذاکرات کے تناظر میں ممکنہ فوجی مشقوں پر غور کر رہے ہیں، جس کا انحصار بات چیت کی کامیابی یا ناکامی پر ہے۔

ایک سینئیر امریکی عہدیدار نے برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ ان ممکنہ فوجی مشقوں کا مقصد سفارت کاری کی ناکامی کی صورت اور ممکنہ بدترین حالات میں ایران کی جوہری تنصیبات تباہ کرنے کی تیاری کرنا ہے۔

اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ امریکہ کے دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی وزیر دفاع بینی گانٹز کے ساتھ یہ طے شدہ امریکی بات چیت 25 اکتوبر کو وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان کو دی گئی اس بریفنگ کا تسلسل ہے جو پینٹاگون کے عہدیداروں نے ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے دستیاب فوجی آپشنز پر دی تھی۔

اس حوالے سے امریکہ اور اسرائیل کی تیاریوں کو پہلے رپورٹ نہیں کیا گیا لیکن یہ ایران کے ساتھ جاری ان مذاکرات کے حوالے سے مغربی ممالک کی تشویش کی نشاندہی کرتی ہے۔ مذاکرات سے قبل امریکی صدر بائیڈن سال 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے پر امید تھے۔

لیکن ایران کی جانب سے سخت مطالبات سامنے آنے کے بعد امریکی اور یورپی عہدیداروں نے ان مذاکرات کے حوالے سے مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

تاہم امریکی عہدیدار نے ممکنہ فوجی مشقوں کے بارے میں تفصیلات بتانے سے انکار کر دیا۔

انہوں نے ابھی بھی مسٔلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کی امید ظاہر کرتے ہوئے کہا: ’ہم اس ابہام میں ہیں کیونکہ ایران کا جوہری پروگرام ایک ایسے نقطے پر آگے بڑھ رہا ہے جس سے آگے اس کی کوئی روایتی دلیل قابل قبول نہیں ہو سکتی۔‘

دوسری جانب ایران کا اصرار ہے کہ تہران کا جوہری ہتھیاروں کی تیاری کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہے اور یہ کہ وہ پرامن مقاصد کے لیے جوہری ٹیکنالوجی میں مہارت حاصل کرنا چاہتا ہے۔

لیکن امریکی اور یورپی حکام نے گذشتہ ہفتے ایران کی نئی سخت گیر حکومت کی جانب سے ویانا میں ہونے والے مذاکرات کے دوران پیش کیے جانے والے مطالبات پر مایوسی کا اظہار کیا ہے جس سے مغرب میں یہ شکوک پیدا ہو گئے ہیں کہ ایران اپنے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے ہوئے وقت حاصل کرنے کے لیے کھیل کھیل رہا ہے۔

مذاکرات کی صدارت کرنے والے یورپی یونین کے عہدیدار نے کہا ہے کہ ’بات چیت جمعرات کو دوبارہ شروع ہو گی اور ایران کے لیے امریکی خصوصی ایلچی ہفتے کے اختتام پر ان مذاکرات میں شامل ہونے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

بین الااقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ ایران نے فردو میں واقع اپنے جوہری پلانٹ میں 166 جدید ترین IR-6 مشینوں کے ذریعے 20 فیصد تک خالص یورینیم افزودہ کرنے کا عمل شروع کر دیا ہے۔‘

فردو پلانٹ ایک پہاڑ میں کھودے گئے مقام پر قائم کیا گیا ہے تاکہ اسے حملے سے محفوظ بنایا جا سکے۔

سال 2015  کے معاہدے میں ایران کو پابندیوں سے ریلیف دیا گیا تھا لیکن اس کی یورینیم کی افزودگی کی سرگرمیوں پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی تھیں۔

یہ معاہدہ ایران کو فردو میں یورینیم کو افزودہ کرنے کی اجازت نہیں دیتا۔

معاہدے پر سمجھوتہ

معاہدے کےفوائد وقت کے ساتھ کم ہوتے جا رہے ہیں، جب کہ کچھ مغربی حکام کا کہنا ہے کہ معاہدے کی بنیاد کو مکمل طور پر ختم ہونے سے بچانے کے لیے اب بہت کم وقت بچا ہے۔

سابق سینئیر امریکی اہلکار اور مشرق وسطیٰ کے ماہر ڈینس روس کے مطابق امریکہ اور اسرائیل کی اس طرح کی مشقیں اس مسٔلے کو حل کر سکتی ہیں۔ اس سے تہران کو کھلے عام یہ اشارہ دیا جا سکتا ہے کہ امریکہ اور اسرائیل اب بھی اسے جوہری ہتھیار حاصل کرنے سے روکنے میں سنجیدہ ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ڈینس روس نے گذشتہ ماہ لکھا تھا: ’بائیڈن کو ایران کی اس غلط فہمی کو ختم کرنے کی ضرورت ہے کہ واشنگٹن اس کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کرے گا اور وہ اسرائیل کو ایسا کرنے سے روکے گا۔‘

ڈینس روس نے یہاں تک کہہ ڈالا کہ ’امریکہ کو اسرائیل کو اپنی فوج کے زیر استعمال بنکرز کو تباہ کرنے والے 30 ہزار پاؤنڈ وزنی بم دینے پر آمادگی ظاہر کرنی چاہیے۔‘

ایسے تبصروں کے بارے میں پوچھے جانے پر سینئیر امریکی اہلکار نے کہا: ’جب صدر بائیڈن کہتے ہیں کہ ایران کبھی بھی جوہری ہتھیار حاصل نہیں کر سکے گا تو میرا مطلب ہے کہ وہ ایسا نہیں ہونے دیں گے۔‘

امریکی سنٹرل انٹیلی جنس ایجنسی کے ڈائریکٹر بل بارنز نے پیر کو کہا تھا کہ ’سی آئی اے کو یقین نہیں ہے کہ ایران کے سپریم لیڈر نے جوہری ڈیوائس کو ہتھیار بنانے کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ لیکن یورینیم کو افزودہ کرنے کی صلاحیت میں پیش رفت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا جو کہ بم بنانے کے لیے جوہری مواد کی تیاری کا ایک راستہ ہے۔‘

بارنز نے خبردار کیا کہ اگر ایران نے آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا تب بھی اسے میزائل یا دیگر ترسیلی نظام سے جوہری ہتھیار کو منسلک کرنے سے پہلے اس جوہری مواد کو ہتھیار بنانے کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کی ضرورت ہوگی۔

تاہم انہوں نے کہا کہ ’وہ جوہری ایندھن کی تیاری میں اپنی مہارت حاصل کرنے کے لیے گامزن ہیں اور یہ اس قسم کا علم ہے جس کو ختم کرنا یا غائب کرنا بہت مشکل ہے۔‘

امریکی حکام بھی طویل عرصے سے ایران کے جوہری ہتھیار سازی کے پروگرام سے متعلقہ تنصیابت کا پتا لگانے اور انہیں تباہ کرنے کی صلاحیت کے بارے میں فکر مند رہے ہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا