’اسرائیل نےجوہری تنصیب پرحملے کے لیےایرانی سائنسدان بھرتی کیے‘

اخبار ’دا جیوش کرونیکل‘ کی رپورٹ میں کیے گئے اس دعوے کے حوالے سے ایرانی حکام نے تاحال کوئی بیان نہیں دیا تاہم ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک خبر میں نطنز کے حملے میں ملوث ایک مشتبہ شخص کا نام سامنے آیا ہے۔

میکسر ٹیکنالوجیز کی فراہم کردہ آٹھ جنوری 2020 کی اس تصویر میں ایران کی نطنز جوہری تنصیب کو دیکھا جا سکتا ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

ایرانی جوہری تنصیب پر رواں برس اپریل میں ہونے والے حملوں کے حوالے سے اخبار ’دا جیوش کرونیکل‘ نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیل نے ان حملوں کے لیے دس اعلیٰ ایران سائنس دانوں کو بھرتی کیا تھا، تاہم ایرانی حکام نے اس حوالے سے ابھی تک کوئی بیان نہیں دیا۔

دوسری جانب ایران کے سرکاری ٹی وی پر نشر ہونے والی ایک خبر میں نطنز کے حملے میں ملوث ایک مشتبہ شخص کا نام بھی سامنے آیا ہے۔

ایران کے ’نیٹ ورک ون ٹیلی ویژن‘ کے مطابق ایرانی انٹیلی جنس حکام نے اپریل میں ہونے والے اس حملے کا ذمہ دار رضا کریمی کو قرار دیا ہے۔ حکام کا کہنا ہے کہ رضا کریمی اس حملے سے قبل ہی ایران سے فرار ہو گئے تھے۔

حکام نے رضا کریمی کی تصویر بھی جاری کی ہے جسے انٹرپول کی جانب سے جاری کردہ ’وانٹڈ‘ (مطلوب شخص) کا پوسٹر قرار دیا جا رہا ہے۔

تاہم انٹرپول کا کہنا ہے کہ وہ اس بات کی تصدیق نہیں کر سکتا کہ رضا کریمی اس کے مطلوب افراد کی فہرست میں شامل ہیں۔

لندن سے شائع ہونے والے اخبار دا جیوش کرونیکل نے رپورٹ کیا ہے کہ اسرائیلی خفیہ ایجنسی موساد نے نطنز کی جوہری تنصیب پر خفیہ کارروائی کرنے کے لیے ایران کے جوہری سائنس دانوں کی ایک ٹیم کو بھرتی کیا تھا۔

اس تنصیب کو ایران کی محفوظ ترین جوہری تنصیب سمجھا جاتا ہے۔

رپورٹ کے مطابق اسرائیلی ایجنٹوں نے دس کے قریب ایرانی سائنس دانوں سے رابطہ کیا اور زیر زمین موجود اے 1000 سینڑی فیوج تیار کرنے والے ہال کو تباہ کرنے پر راضی کیا۔

ان سائنس دانوں کو اس بات کا یقین دلایا گیا تھا کہ وہ بیرون ملک مقیم ناراض ایرانی گروہ کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔

دا جیوش کرونیکل کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اس حملے میں استعمال ہونے والا دھماکہ خیز مواد ایک ڈرون کی مدد سے خاموشی سے کمپاؤنڈ میں گرایا گیا تھا، جسے ان سائنس دانوں نے وصول کر لیا۔ جب کہ باقی سامان اس تنصیب میں کھانے کی گاڑی میں خوراک کے ڈبوں میں ڈال کر پہنچایا گیا تھا۔

اخبار کے مطابق اس حملے نے اس جوہری تنصیب کے سینٹری فیوجز میں سے 90 فیصد کو تباہ کر دیا تھا، جس کے باعث اس تنصیب میں بم کی تیاری کو تقریباً نو ماہ تک تعطلی کا سامنا کرنا پڑا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

خبر میں سامنے آنے والی حیران کن معلومات میں ایران میں 11 ماہ کے دوران کی جانے والی موساد کی تین کارروائیوں کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔

پہلی دو کارروائیوں میں نطنز میں موجود تنصیب کو جولائی 2020 میں اور اپریل 2021 میں دھماکہ خیز مواد سے نشانہ بنایا گیا۔

جب کہ تیسری کارروائی رواں سال جون میں کی گئی جب تہران سے 30 میل شمال مغرب میں موجود کرج شہر کے قریب ایران کی سینٹری فیوج بنانے والی کمپنی کو کواڈ کاپٹر کے حملے کا نشانہ بنایا گیا۔

ان حملوں کی مکمل تفصیل پہلی بار دا جیوش کرونیکل کی خبر میں سامنے آئی ہے۔

رپورٹ میں شائع ہونے والی مزید تفصیلات کے مطابق:

  • موساد کے ایجنٹ عمارت میں دھماکہ خیز مواد سال 2019 سے چھپا رہے تھے، جس کے بعد سال 2020 میں اس کو دھماکے میں استعمال کیا گیا۔
  • اسرائیلی ایجنٹوں نے ایک موٹر بائیک کے وزن جتنا کواڈ کاپٹر ایران میں ٹکڑے ٹکڑے کرکے پہنچایا، جہاں اس کو جوڑ کر جون میں کرج میں ہونے والے حملے کے لیے استعمال کیا گیا۔
  • ان حملوں کی منصوبہ بندی 18 ماہ کی مدت میں مکمل کی گئی جس میں ایک ہزار کے قریب ٹیکنیشنز شریک تھے جب کہ ایران میں موجود ایجنٹس ان کے علاوہ تھے۔
  • ایرانی تنصیبات میں کی جانے والی یہ کارروائی موساد نے انفرادی طور پر کی تھی اور اسرائیلی انٹیلی جنس کے حلقوں میں اس کو ’بلیو اینڈ وائٹ آپریشن‘ کہا جاتا تھا۔
  • ایران ان حملوں کا الزام اسرائیل پر عائد کرتا رہا ہے اور ان حملوں کے بعد ایران نے اپنی جوہری سرگرمیوں میں بھی تیزی لائی ہے۔

دوسری جانب اسرائیل ان حملوں میں ملوث ہونے کی تصدیق یا تردید نہیں کرتا لیکن اسرائیل کا سرکاری ریڈیو انٹیلی جنس ذرائع کے حوالے سے یہ خبر دے چکا ہے کہ یہ کارروائیاں موساد کے سائبر آپریشنز کا حصہ تھیں۔

ایک ایسے وقت میں جب ایران کے 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر عالمی طاقتوں کے ساتھ مذاکرات ویانا میں جاری ہیں تو امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بھی ان مذاکرات کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ ایران کے لیے اس معاہدے کو بحال کرنے کے لیے تاخیر نہیں ہوئی لیکن اس کی امید کم ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق اینٹنی بلنکن نے سٹاک ہوم میں یورپ میں سلامتی اور تعاون کی تنظیم (او ایس سی ای) کے موقعے پر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگرچہ وقت بہت دیر سے گزر رہا ہے، ایران کے لیے راستہ بدلنے میں زیادہ دیر نہیں ہوئی‘ کہ وہ 2015 کے اس معاہدے کو بچالے جو تہران کو ایٹم بم بنانے سے روکتا تھا۔

دوسری جانب جمعرات کو اینٹنی بلنکن کو کی جانے والی ایک فون کال میں اسرائیلی وزیراعظم نفتالی بینیٹ نے ویانا میں ایران اور بڑی طاقتوں کے درمیان مذاکرات کو ’فوری طور پر بند‘ کرنے پر زور دیا، جو پانچ ماہ کے وقفے کے بعد پیر کو دوبارہ شروع ہوئے تھے۔

اخبار ’الشرق الاوسط‘ کی ایک خبر کے مطابق اسرائیلی فوج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل ران کوچاو نے اعلان کیا ہے کہ ان کی فوج ایران پر حملہ کرنے کے لیے تمام ممکنہ حالات کی تیاری کر رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق کوچاو نے کان بیٹ ریڈیو چینل کو بتایا کہ فوج نے اپنی تیاری کی سطح کو بڑھایا ہے اور یہ کہ فوجی اور آپریشنل شعبے ایران کو شمالی میدان میں داخل ہونے سے روکنے اور اسے جوہری ریاست بننے سے روکنے میں سب سے آگے ہیں۔

اسرائیلی وزیر خارجہ یائر لاپڈ کے قریبی ذرائع نے بھی تصدیق کی ہے کہ اسرائیل نے بڑی طاقتوں اور ایران کے درمیان ویانا میں ہونے والے جوہری مذاکرات کے حوالے سے اپنے موقف کے بارے میں واضح پیغامات بھیجے ہیں۔

یاد رہے کہ اسرائیل ایران کے ساتھ جوہری پروگرام پر ہونے والے کسی بھی معاہدے کی مخالفت کرتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا