اقوام متحدہ نے بدھ کو غزہ میں امریکی حمایت یافتہ امدادی نظام کی مذمت کی جہاں خوراک کی تقسیم کے دوران شدید افراتفری میں 47 افراد زخمی گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق غزہ میں امدادی بحران اور بڑھتی ہوئی خوراک کی کمی کے پس منظر میں ’غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن‘ (جی ایچ ایف) پر تنقید میں شدت آ گئی ہے۔
یہ ایک غیر واضح گروپ ہے جو طویل عرصے سے اقوام متحدہ کی زیرِ قیادت امدادی نظام کو نظر انداز کر کے کام کر رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے مطابق منگل کو ہزاروں فلسطینی خوراک کے حصول کے لیے جی ایچ ایف کے امدادی مرکز کی طرف لپکے جس کے نتیجے میں افراتفری مچ گئی اور 47 افراد زخمی ہوئے جن میں سے زیادہ تر گولیاں لگنے سے متاثر ہوئے۔
ایک فلسطینی طبی ذرائع کے مطابق اس افراتفری میں کم از کم ایک شخص جان سے گیا۔
فلسطینی علاقوں میں اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کے سربراہ اجیت سنگھ نے کہا کہ زیادہ تر زخمی گولیوں سے متاثر ہوئے۔
ان کے مطابق دستیاب معلومات کی بنیاد پر ’فائرنگ اسرائیلی فوج کی جانب سے کی گئی تھی۔
تاہم اسرائیلی فوج نے اس الزام کو مسترد کیا ہے۔ فوجی ترجمان کرنل اولیور رافووچ نے اے ایف پی کو بتایا کہ اسرائیلی فوجیوں نے جی ایچ ایف کے مرکز کے باہر صرف ’ہوائی فائرنگ‘ کی اور کسی صورت میں ’لوگوں کی طرف نشانہ‘ نہیں بنایا گیا۔
دوسری جانب امریکی حمایت یافتہ غزہ ہیومینیٹیرین فاؤنڈیشن نے بدھ کو اعلان کیا ہے کہ غزہ میں امداد کی تقسیم عارضی طور پر معطل کر دی گئی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق تنظیم نے بتایا کہ یہ اقدام افراتفری کے باعث اٹھایا گیا اور وہ موجودہ مسائل کو حل کرنے کے لیے کام کر رہی ہے تاکہ امدادی عمل کی سکیورٹی کو یقینی بنایا جا سکے۔
دوسری جانب فلسطینی ہلال احمر نے بدھ کو بتایا کہ اسے ایک ایسے نوجوان کی لاش موصول ہوئی ہے جسے اس کے کزن کے مطابق اسرائیلی فورسز نے رات گئے مغربی کنارے کے مقبوضہ گاؤں میں ایک چھاپے کے دوران قتل کیا۔
تنظیم نے ایک بیان میں کہا: ’ہماری ٹیموں نے قلقیلیہ کے قریب گاؤں جت کے داخلی راستے پر اسرائیلی فورسز سے ایک مقتول کی لاش وصول کی ہے اور ہم اسے اب اسپتال منتقل کر رہے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بیان میں مزید کہا گیا کہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے اس نوجوان کی موت کے حالات کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں جب کہ اسرائیلی فورسز اکثر ایسے فلسطینیوں کی لاشیں اپنے قبضے میں رکھتی ہیں جو فوجی کارروائیوں کے دوران مارے جاتے ہیں۔
مقتول کے کزن احمد السدہ نے اے ایف پی کو بتایا کہ مرنے والے 22 سالہ کا نام جاسم السدہ تھا۔
انہوں نے کہا کہ فوج فجر کے وقت آئی اور اسے اس کے گھر میں گولی مار دی گئی جب کہ جاسم کسی بھی سرگرمی میں ملوث نہیں تھا اور نہ ہی وہ کسی کو مطلوب تھا۔
اسرائیلی فوج نے اے ایف پی کی جانب سے تبصرے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی ردِعمل نہیں دیا۔
یاد رہے کہ اکتوبر 2023 میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کے آغاز کے بعد سے مغربی کنارے میں تشدد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے جہاں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق تب سے اب تک کم از کم 937 فلسطینی اسرائیلی فوج یا آبادکاروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔
اسی عرصے میں فلسطینی حملوں اور فوجی چھاپوں کے دوران جھڑپوں میں کم از کم 34 اسرائیلی — جن میں فوجی بھی شامل ہیں — ہلاک ہوئے ہیں، جیسا کہ سرکاری اعداد و شمار بتاتے ہیں۔