فلسطینی تنظیم حماس نے ہفتہ کو اعلان کیا ہے کہ اس نے غزہ میں جنگ بندی کے لیے امریکی حمایت یافتہ تجویز کا جواب دے دیا ہے، تاہم واشنگٹن کے مرکزی مذاکرات کار نے اس جواب کو ’مکمل طور پر ناقابل قبول‘ قرار دیا۔
حماس نے کہا ہے کہ اس کا جواب ’مثبت‘ تھا مگر ساتھ ہی اس نے مستقل فائر بندی کی ضرورت پر زور دیا، جو طویل عرصے سے اسرائیل کے لیے اختلاف کا باعث ہے۔
اسرائیلی وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو نے امریکی نمائندے سٹیو وِٹکوف کی اس رائے کی تائید کی کہ یہ جواب ’ناقابل قبول‘ ہے، اور حماس پر الزام لگایا کہ وہ ’اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔‘
اسرائیل نے جمعے کو حماس کو خبردار کیا تھا کہ وہ معاہدے کو قبول کر کے غزہ میں موجود قیدیوں کو رہا کرے ’ورنہ اسے تباہ کر دیا جائے گا۔‘
ہفتہ کو جاری کیے گئے ایک بیان میں حماس نے کہا کہ اس نے ’اپنا جواب ثالثی کرانے والے فریقوں کو دے دیا ہے‘۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اس معاہدے کے تحت حماس کے پاس قید قابض ریاست کے 10 زندہ قیدیوں کو رہا کیا جائے گا اور اس کے علاوہ 18 لاشیں بھی واپس کی جائیں گی، جس کے بدلے میں طے شدہ تعداد میں فلسطینی قیدیوں کو رہا کیا جائے گا۔‘
حماس کے سیاسی بیورو کے ایک ذریعے نے بتایا کہ تنظیم نے وٹکوف کو ’مثبت جواب دیا مگر اس بات پر زور دیا ہے کہ مستقل جنگ بندی اور غزہ سے اسرائیل کا مکمل انخلا یقینی بنایا جائے۔‘
دوسری جانب وٹکوف کا کہنا ہے کہ حماس کا جواب ’مکمل طور پر ناقابل قبول ہے اور یہ ہمیں صرف پیچھے کی جانب لے جاتا ہے۔‘
انہوں نے گروپ پر زور دیا کہ ’ہماری پیش کردہ فریم ورک تجویز کو قبول کیا جائے۔‘
سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر پوسٹ کرتے ہوئے وٹکوف نے مزید کہا کہ ’یہی واحد راستہ ہے کہ ہم آئندہ چند دنوں میں 60 دن کی جنگ بندی کے معاہدے کو حتمی شکل دے سکتے ہیں جس کے تحت آدھے زندہ قیدی اور مر جانے والے نصف قیدیوں کی لاشیں ان کے خاندانوں کو واپس مل سکیں گی اور ہم مستقل جنگ بندی کے لیے سنجیدہ مذاکرات نیک نیتی کے ساتھ شروع کر سکیں گے۔‘
حماس کے سیاسی بیورو کے رکن باسم نعیم نے بعد ازاں اے ایف پی کو بتایا کہ گروپ نے وٹکوف کی تجویز کا ’مثبت اور ذمہ دارانہ جواب دیا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مذاکرات کے عمل میں ’مکمل طور پر اسرائیل کے حق میں جانب داری‘ کا الزام لگاتے ہوئے کہا کہ اسرائیل ان شرائط سے پیچھے ہٹ گیا ہے ’جن پر ہم پہلے امریکی نمائندے سے اتفاق کر چکے تھے۔‘
حماس طویل عرصے سے یہ موقف رکھتی ہے کہ کسی بھی معاہدے میں مستقل فائر بندی تک پہنچنے کا واضح راستہ ہونا چاہیے۔
اسرائیل اس امکان کو مسترد کرتا آیا ہے اور اصرار کرتا ہے کہ اکتوبر 2023 جیسے حملے کی روک تھام کے لیے اس گروپ کو ختم کرنا ضروری ہے۔ اسرائیل نے حالیہ دنوں میں حماس کو شکست دینے کے لیے غزہ میں اپنی کارروائیاں تیز کر دی ہیں۔
نتن یاہو کے دفتر نے اپنے بیان میں کہا کہ ’اسرائیل نے اپنے یرغمالیوں کی رہائی کے لیے وٹکوف کے تازہ ترین فریم ورک کو قبول کر لیا، تاہم حماس اپنی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔ حماس کا جواب ناقابل قبول ہے اور اس سے امن کے عمل کو دھچکا لگا ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ ’اسرائیل اپنے یرغمالیوں کی واپسی اور حماس کو شکست دینے کے لیے اپنی کوششیں جاری رکھے گا۔‘
اس سے پہلے 18 مارچ کو ہونے والی جنگ بندی کی ناکامی اور اسرائیلی کارروائیوں کے دوبارہ شروع ہونے کے بعد سے مذاکرات میں کسی پیش رفت کا حصول مشکل رہا ہے۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعہ کو کہا تھا کہ فریقین ’معاہدے کے بہت قریب پہنچ چکے ہیں‘۔
مذاکرات سے قریب دو ذرائع کے مطابق وٹکوف کی تجویز میں 60 دن کی جنگ بندی شامل ہے جس میں ممکنہ طور پر 70 دن تک توسیع کی جا سکتی ہے۔
ان ذرائع نے کہا کہ اس معاہدے کے پہلے ہفتے میں پانچ زندہ قیدیوں اور نو لاشوں کی رہائی فلسطینی قیدیوں کے بدلے ہو گی، جب کہ اگلے ہفتے میں دوسرا تبادلہ کیا جائے گا۔