کراچی میں اتوار یکم جون کی شام ساڑھے پانچ بجے سے ریکٹر سکیل پر درمیانی اور کم شدت والے زلزلوں کا سلسلہ منگل کو بھی جاری ہے۔ محکمہ موسمیات کے مطابق اتوار کی شام سے منگل کی دوپہر تک کراچی کے مختلف علاقوں میں 19 زلزلے ریکارڈ کیے گئے۔
پاکستان میٹرولوجیکل ڈیپارٹمنٹ کے چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری کے مطابق یہ زلزلے کراچی کے قائدآباد، ملیر، لانڈھی، کورنگی میں ریکارڈ کیے گئے۔ ان میں کچھ زلزلے ایم نائن موٹروے پر واقع ڈی ایچ اے سٹی اور کراچی سے متصل پہاڑی سلسلے کھیڑتھر نیشنل پارک میں بھی ریکارڈ کیے گئے۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے امیر حیدر لغاری نے کہا: ’کراچی میں حالیہ دنوں آنے والے زلزلوں میں پہلا زلزلہ یکم جون اتوار کی شام پانچ بج کر 33 منٹ پر ریکارڈ کیا گیا۔ جس کی ریکٹر سکیل پر شدت 3.6 تھی اور گہرائی 10 کلومیٹر تھی۔ اس کے بعد آنے والے زلزلوں کی شدت اس پہلے والے زلزلے سے کم ریکارڈ کی گئی ہے۔‘
کراچی میں غیر معمولی زلزلوں کے اسباب پر گفتگو کرتے ہوئے امیر حیدر لغاری نے کہا کہ کراچی انڈین ٹیکٹونک پلیٹ پر واقع ہے، جب کہ بلوچستان کے سونمیانی میں تین ٹیکٹونک پلیٹس بشمول انڈین پلیٹ، یوریشین پلیٹ اور عربین پلیٹ کا جنکشن ہے۔
’مگر یہ زلزلے ان پلیٹس کے بجائے کراچی میں موجود ’لانڈھی فالٹ لائن‘ کے اچانک سرگرم ہونے کے باعث آنا شروع ہوئے ہیں۔‘
امیر حیدر لغاری کے مطابق: ’لانڈھی فالٹ لائن پہلے سے موجود ہے، زلزلہ پیمائی کے بنیادی اصولوں کے مطابق کبھی کبھی فالٹ لائن خود کو ایڈجسٹ کرنا شروع کرتی ہے۔ اسی طرح لانڈھی فالٹ لائن کی ایڈجسٹمنٹ کے باعث زلزلوں کا یہ سلسلہ شروع ہوا ہے، جو آنے والے چند دنوں میں رک جائے گا۔ جب بھی فالٹ لائن سرگرم ہو جاتی ہے تو اس علاقے میں کم شدت والے زلزلے کچھ دنوں تک تواتر سے آنا شروع ہوتے ہیں، اور جب فالٹ لائن خود کو مکمل طور پر ایڈجسٹ کر لیتی ہے تو زلزلوں کا سلسلہ رک جاتا ہے۔‘
’عام لوگ اور میڈیا یہ رپورٹ کر رہے ہیں کہ کراچی میں آفٹر شاکس آ رہے ہیں، جو بات درست نہیں ہے۔ آفٹر شاکس ریکٹر سکیل پر بڑی شدت کے زلزلے کے بعد آنے والے کم شدت والے زلزلوں کو کہا جاتا ہے، مگر کراچی میں ہر بار یہ نیا زلزلہ آ رہا ہے اور یہ کسی بڑے زلزلے کے آفٹر شاکس نہیں ہیں۔‘
ایک سوال کے جواب میں چیف میٹرولوجسٹ امیر حیدر لغاری نے کہا کہ متوقع طور پر زلزلوں سے متاثر ہونے والے کسی زون میں اگر کم شدت والے زلزلے آنا شروع ہوں تو سائنسدانوں کے مطابق یہ اس علاقے کے لیے مثبت ہوتا ہے، کیونکہ وہاں موجود زیرِ زمین توانائی خارج ہونے سے اس علاقے میں مستقبل قریب میں بڑے زلزلے آنے کے امکانات کم ہو جاتے ہیں۔
بقول امیر حیدر لغاری: ’محکمہ موسمیات کے ڈیٹا بیس کے مطابق لانڈھی فالٹ لائن اور اس کے آس پاس کے علاقوں میں گذشتہ ایک صدی سے کم شدت والے زلزلے ریکارڈ ہوتے رہے ہیں۔‘
26 دسمبر 2004 کو انڈونیشیا کے ایک جزیرے سماٹرا پر ریکٹر سکیل پر 9.1 شدت والے زلزلے کے باعث ایک بہت بڑے سونامی (سمندری طوفان) نے جنم لیا جو پوری شدت سے انڈونیشیا کے ساحلوں سے ٹکرایا تھا۔ یہ سونامی بحر ہند کے ارد گرد کی تمام ساحلی آبادیوں کو مکمل طور پر بہا کر لے گیا تھا۔
اس کے بعد کئی ممالک میں ’ارلی سونامی وارننگ مراکز‘ قائم کیے گئے۔ پاکستان کے محکمہ موسمیات کی جانب سے کراچی میں قائم ارلی سونامی وارننگ مرکز 24 گھنٹے فعال رہتا ہے، جہاں نہ صرف پاکستان بلکہ دنیا بھر میں آنے والے زلزلوں کی ہر وقت مانیٹرنگ کی جاتی ہے۔
امیر حیدر لغاری کے مطابق: ’یہ ایک سٹیٹ آف دی آرٹ مرکز ہے، جہاں نہ صرف زلزلوں کی نگرانی کی جاتی ہے، بلکہ بڑے زلزلے کی صورت میں الرٹ سسٹم کے تحت عوام اور میڈیا کو بروقت آگاہ کرنے کا بھی انتظام موجود ہے۔‘
زلزلوں کے لحاظ سے پاکستان کے زیادہ خطرے والے علاقے
جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق، پاکستان کا بیشتر علاقہ زلزلوں کے خطرے سے دوچار ہے، کیونکہ یہ ملک فعال ٹیکٹونک پلیٹوں کے سنگم پر واقع ہے۔ تاہم، کچھ علاقے ایسے ہیں جو زیادہ خطرے یا ہائی رسک سیسمک زون میں شمار کیے جاتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جیولوجیکل سروے آف پاکستان کے مطابق، ملک کے کئی علاقے زلزلوں کے لحاظ سے زیادہ خطرے کا شکار ہیں، جن میں شمالی پاکستان کے علاقے جیسے گلگت بلتستان، چترال، سوات، کوہستان، مانسہرہ اور ایبٹ آباد شامل ہیں۔ یہ تمام علاقے زون فور میں آتے ہیں اور یہاں شدید نوعیت کے زلزلے آنے کا خدشہ رہتا ہے۔
خیبر پختونخوا کے کچھ علاقے جیسے پشاور، مردان، بونیر اور دیر بھی زون تھری میں شامل ہیں اور یہاں درمیانے سے شدید نوعیت کے زلزلوں کا خطرہ ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد اور راولپنڈی بھی زون تھری میں آتے ہیں، جہاں زلزلوں کا خطرہ مسلسل موجود رہتا ہے۔
بلوچستان میں کوئٹہ، ژوب، تربت اور گوادر جیسے شہر زون فور اور زون تھری میں شامل ہیں، جبکہ مکران کا ساحلی علاقہ، خاص طور پر مکران سبڈکشن زون، سونامی کے خطرے کی وجہ سے بہت اہم سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان کے زیرِ انتظام کشمیر کے علاقے جیسے مظفرآباد، باغ، راولا کوٹ اور نیلم ویلی بھی زون فور میں آتے ہیں اور یہاں 2005 جیسے شدید زلزلوں کی مثالیں موجود ہیں۔
سندھ میں کراچی زون تھری میں شامل ہے، جہاں درمیانے درجے کے زلزلے کا خطرہ موجود رہتا ہے، خاص طور پر اگر مکران کے ساحلی علاقے میں کوئی بڑا زلزلہ آئے۔
پنجاب کے زیادہ تر علاقے جیسے لاہور نسبتاً کم خطرے والے زون ٹو یا زون ون میں آتے ہیں، لیکن زلزلے کا امکان وہاں بھی مکمل طور پر مسترد نہیں کیا جا سکتا۔