چار جون 2025 کو اقوام متحدہ کی افغان طالبان پر پابندیوں کے حوالے سے کمیٹی کی سربراہی پاکستان کو دی گئی، جس کے بعد اب 31 دسمبر 2025 تک اس کمیٹی کی سربراہی اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار کریں گے۔
پاکستان کے نیویارک مشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں لکھا گیا ہے کہ ’یہ ایک اہم سفارشی پیش رفت ہے اور اس کمیٹی کی سربراہی کے بعد کمیٹی افغان طالبان پر پابندیوں کے نفاذ کی نگرانی کرے گی۔
اس کے ساتھ، پاکستان سکیورٹی کونسل کی انسداد دہشت گردی کمیٹی کا نائب سربراہ بھی منتخب ہوا ہے۔
اس حوالے سے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے ایکس پر لکھا: ’ان کمیٹیوں کی سربراہی اور نائب سربراہی بین الاقوامی کمیونٹی کا پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی کوششوں پر اعتماد کا اظہار ہے۔‘
یہ کمیٹی کیا ہے اور کیوں بنائی گئی؟
اقوام متحدہ کی افغان طالبان پر پابندیوں کی کمیٹی کو ’1988 سینکشن کمیٹی‘ کہا جاتا ہے اور اس کو یہ نام اس لیے دیا گیا کہ یہ اقوام متحدہ کی 2011 میں 1988 نمبر قرارداد کے تحت بنائی گئی۔
یہ کمیٹی افغان طالبان کے رہنماؤں پر پابندیوں، پابندیوں کی فہرست میں ڈالنے یا نکالنے، طالبان رہنماؤں کے اثاثے منجمد یا غیر منجمند کرنے اور طالبان رہنماؤں پر سفری پابندیاں لگانے یا ختم کرنے کا اختیار رکھتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی طرح اس کمیٹی کے پاس افغان طالبان سے وابستہ کسی بھی تنظیم پر پابندیاں لگانے یا ہٹانے کا بھی اختیار ہے اور یہ کسی تنظیم کو پابندیوں کی فہرست میں ڈالنے یا نکالنے کا بھی اختیار رکھتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ویب سائٹ پر موجود تفصیلات کے مطابق یہ کمیٹی افغان طالبان یا افغانستان کے حوالے سے مختلف مانیٹرنگ رپورٹس کی جانچ پڑتال بھی کرتی ہے۔
اس کمیٹی کا مقصد افغانستان میں امن و امان قائم کرنا اور افغان طالبان سے جڑی تنظیموں کی نگرانی کرنا ہے تاکہ ان سے افغانستان کو خطرہ نہ ہو۔
یہ کمیٹی اس وقت بنائی گئی تھی جب افغانستان میں جمہوری حکومت قائم تھی، تاہم افغان طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے بعد بھی کمیٹی کے اغراض و مقاصد میں ترمیم نہیں کی گئی۔
اس کمیٹی کے پابندیوں کی فہرست میں ماضی میں افغان طالبان کے مختلف سینیئر رہنما موجود تھے، لیکن اب اس میں سے بہت سے رہنماؤں کا نام نکال دیا گیا ہے اور ان پر سے سفری پابندیاں بھی ہٹا لی گئی ہیں۔
یہ کمیٹی فیصلے کیسے کرتی ہے؟
طالبان پر پابندیوں کی نگران اس کمیٹی کے 15 رکن ممالک ہیں اور یہ وہی ارکان ہیں جو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے رکن ہیں۔
ان میں سکیورٹی کونسل کے مستقل اراکین امریکہ، چین، فرانس، روس، اور برطانیہ شامل ہیں جبکہ 10 غیرمستقل ارکان میں الجیریا، ڈنمارک، یونان، گویانا، پاکستان، پاناما، کوریا، سیرا لیون، سلووینیا، اور صومالیہ شامل ہیں۔
اقوام متحدہ کے کمیٹیوں کی گائیڈ لائنز کے مطابق طالبان پر پابندیوں کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کمیٹی اراکین کا مشترکہ ہو گا۔
گائیڈ لائنز کے مطابق اگر کمیٹی کا کوئی رکن ملک کسی رہنما یا تنظیم پر پابندی یا پابندیوں کو فہرست سے ہٹانے کے لیے نام دیتا ہے، تو اس کے ساتھ تمام تر تفصیلات دینا ضروری ہوتا ہے۔
کمیٹی کے قواعد و ضوابط میں یہ بھی لکھا گیا ہے کہ کسی رہنما یا تنظیم پر پابندی لگانے یا فہرست سے نکالنے کے دوران افغان حکومت سے مشورہ بھی کرنا چاہیے (یہ افغان طالبان حکومت قائم ہونے سے پہلے کی گائیڈ لائن ہے)۔
اسی طرح کمیٹی کے قواعد و ضوابط میں یہ بھی شامل ہے کہ اگر کسی شخص یا تنظیم پر پابندی لگانے یا فہرست سے نکالنے پر متفقہ فیصلہ نہیں کیا جاتا، تو ایسے فیصلے کو پینڈنگ سٹیٹس (زیر التوا) کر دیا جائے گا اور 10 دنوں کے اندر اس پر فیصلہ کرنا ہو گا۔
سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین کے پاس اقوام متحدہ کے قوانین کے مطابق ویٹو پاور موجود ہے اور وہ کسی بھی قرارداد یا کسی رہنما یا تنظیم پر پابندی لگانے یا ہٹانے کے فیصلے کو ویٹو کر سکتے ہیں۔
ویٹو پاور کا مطلب یہ ہے کہ اگر سلامتی کونسل کسی معاملے کے حوالے سے کوئی بھی فیصلہ کرتی ہے، تو ان ممالک کے پاس اس فیصلے کو رد کرنے کا اختیار موجود ہے۔
شمائل احمد بٹ ماہر بین الاقوامی قوانین اور سپریم کورٹ آف پاکستان کے وکیل ہیں، ان کے مطابق ’سلامتی کونسل کے کمیٹیوں کے کسی فیصلے کے حوالے سے ویٹو پاور استعمال نہیں کی جا سکتی۔‘
شمائل بٹ نے بتایا: ’اگر کمیٹی کوئی فیصلہ کرے اور اس فیصلے کے نفاذ کے لیے سلامتی کونسل کی ضرورت ہو تو اس صورت میں سلامتی کونسل کے پانچ مستقل اراکین ممالک ویٹو پاور استعمال کر سکتے ہیں۔‘
ان کمیٹیوں کی اہمیت کے بارے میں شمائل بٹ نے بتایا کہ ’طالبان پر پابندیوں کی کمیٹی اور انسداد دہشت گردی کمیٹی جس کا پاکستان نائب سربراہ منتخب ہوا ہے، بہت اہم کمیٹیاں ہیں اور سفارتی طور پر یہ پاکستان کے لیے بہت اہم پیش رفت ہے۔‘
انہوں نے بتایا: ’انڈیا اور پاکستان کے مابین کشیدگی کے بعد پاکستان کو ان کمیٹیوں کا سربراہ اور نائب سربراہ منتخب ہونا پاکستان کے لیے بہت اہم ہے۔ اس سے پاکستان افغان طالبان کے ساتھ بہتر تعلقات بھی بحال کر سکتا ہے۔‘
بیرسٹر علی گوہر درانی سپریم کورٹ کے وکیل ہیں اور بین الاقوامی قوانین پر دسترس رکھتے ہیں، انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سلامتی کونسل کے مستقل اراکین ممالک میں سے ایک کا ووٹ بھی اگر منفی آتا ہے، تو وہ فیصلہ ویٹو ہو سکتا ہے۔
علی گوہر درانی نے بتایا، ‘15 اراکین میں اگر 14 کسی فیصلے پر متفق ہوں اور ایک ویٹو پاور والا رکن اس فیصلے سے اختلاف کرے، تو فیصلہ ویٹو ہو سکتا ہے کیونکہ سکیورٹی کونسل ہی نے یہ فیصلے نافذ کرنے ہوتے ہیں۔‘