انڈیا سے کشیدگی کے بعد افغان پاکستان اتحاد کتنا پائیدار؟

اگر پاکستان افغانستان کو صرف ایک سٹریٹجک بفر زون کے طور پر دیکھتا رہا اور اسے ایک خودمختار ہمسایہ اور سنجیدہ شراکت دار تسلیم نہ کیا تو یہ نیا اتحاد وقتی ثابت ہو سکتا ہے۔

پاکستان، چین اور افغانستان کے درمیان چھ مئی 2025 کو کابل میں سہہ فریقی اجلاس کا ایک منظر (باختر میڈیا)

انڈیا کے ساتھ حالیہ فوجی کشیدگی کے بعد پاکستان کی سٹریٹجک ڈاکٹرائن اندرونی اور بیرونی سطح پر نمایاں طور پر بدل چکی ہے۔

تاہم اس حوالے سے ایک بات اب بھی بدستور قائم ہے یعنی انڈیا کو ہر قیمت پر قابو میں رکھنا۔ نئی دہلی اور اسلام آباد کی دشمنی اب بھی خطے کی سیاست، عداوت اور اتحاد کو نئی شکل دے رہی ہے۔ دونوں ممالک اپنی دفاعی پالیسیوں میں ایک دوسرے کو دشمن قرار دیتے ہیں۔

مئی 2025 میں ہونے والی انڈیا پاکستان کشیدگی نے خطے کے رہنماؤں میں پائے جانے والے اضطراب کو اجاگر کیا، جنہوں نے سٹریٹجک فائدہ حاصل کرنے کے لیے اپنے ہمسایہ ممالک اور عالمی شراکت داروں سے اتحاد قائم کرنے اور یقین دہانی حاصل کرنے کی کوششیں کیں۔

اگرچہ افغان طالبان کو طویل عرصے سے پاکستان فوج کا حمایت یافتہ تصور کیا جاتا ہے اور کابل کو پاکستان کی سٹریٹجک ڈیپتھ کا حصہ سمجھا جاتا رہا ہے لیکن حالیہ دنوں میں ان تعلقات میں تلخی دیکھی گئی ہے۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان میں مبینہ شدت پسند کیمپوں پر فضائی حملے، افغان طالبان پر کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے رہنماؤں کو پناہ دینے کے الزامات اور افغان پناہ گزینوں کی جبری بے دخلی جیسے معاملات نے کابل اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کو جنم دیا ہے۔

تاہم انڈیا پاکستان فوجی جھڑپ کے بعد کابل ایک بار پھر پرکشش شراکت دار کے طور پر سامنے آیا ہے۔ انڈیا کی جانب سے پاکستان پر فضائی حملوں سے چند روز قبل انڈین وزیر خارجہ نے افغان ہم منصب سے رابطہ کیا تاکہ انڈیا کی اس خطے میں موجودگی کو مضبوط اور پاکستان کے اثر و رسوخ کا توڑ کیا جا سکے۔

انڈیا کی ان سفارتی چالوں سے پریشان ہو کر اسلام آباد کو بھی افغان طالبان کے لیے اپنا لہجہ نرم کر کے کابل سے دوبارہ رابطہ کرنا پڑا۔

30 مئی کو پاکستان کے وزیر خارجہ نے اعلان کیا کہ کابل کے ساتھ سفارتی تعلقات کو نچلی (چارج ڈی افیئر) سے بڑھا کر سفیر کی سطح پر لے جایا جا رہا ہے۔ کابل نے اس اعلان کا خیر مقدم کیا اور اسلام آباد میں سفیر تعینات کرنے کا اعلان کیا۔

یہ پیش رفت اسلام آباد کی کابل سے تعلقات مضبوط بنانے اور وہاں انڈیا کے اثر و رسوخ کو روکنے کی خواہش کو واضح کرتی ہے۔

صرف ایک ہفتہ قبل یعنی 21 مئی کو چین، پاکستان اور افغانستان نے چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کو افغانستان تک وسعت دینے پر اتفاق کیا۔ یہ معاہدہ بیجنگ میں سہ فریقی ملاقات کے دوران ہوا، جس کی میزبانی چینی وزیر خارجہ وانگ ژی نے کی۔ اس موقع پر پاکستان کے وزیر خارجہ اسحاق ڈار اور افغانستان کے قائم مقام وزیر خارجہ بھی شریک تھے۔

چونسٹھ ارب ڈالر مالیت کا سی پیک منصوبہ، جو چین کے بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو کا مرکزی جزو ہے، چین کے سنکیانگ صوبے کو بلوچستان کی گوادر بندرگاہ سے ایک وسیع سڑک، ریلوے اور پائپ لائن نیٹ ورک کے ذریعے جوڑے گا۔

اگرچہ افغانستان میں سی پیک کی توسیع پر برسوں سے بات چیت ہو رہی تھی لیکن کچھ خاص پیش رفت نہیں ہو سکی تھی کیونکہ حامد کرزئی اور اشرف غنی جیسی سابق افغان انتظامیہ ایران کی انڈیا کی مدد سے تیار کردہ چاہ بہار بندرگاہ کو ترجیح دیتی تھیں۔

طالبان نے بعد میں چاہ بہار کو تجارتی راستے کے طور پر قبول کیا، خاص طور پر اس وقت جب پاکستان نے بار بار افغانستان کے ساتھ اپنی سرحدیں بند کی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انڈیا نے مئی 2024 میں ایران کے ساتھ 10 سالہ معاہدہ کیا تاکہ ایران کے جنوب مشرقی ساحل پر خلیج عمان کے ساتھ واقع چاہ بہار بندرگاہ کو ترقی دے کر چلایا جا سکے۔ اس ترقی کے نتیجے میں انڈیا کو پاکستان کی بندرگاہوں (کراچی اور گوادر) کو بائے پاس کرتے ہوئے ایران، افغانستان اور وسطی ایشیا تک رسائی حاصل ہو سکتی ہے۔

اگرچہ طالبان کا تاریخی طور پر جھکاؤ اسلام آباد کی جانب رہا ہے، تاہم کابل کی موجودہ عبوری حکومت اب اس نئی اور پیچیدہ سٹریٹجک صورت حال کے مطابق کام کر رہی ہے۔ بطور ایک مذہبی ریاست، جو علاقائی ساکھ اور عالمی شناخت کی خواہاں بھی ہے، طالبان حکمرانوں کے پاس کئی سفارتی راستے موجود ہیں۔

اگرچہ پاکستان، چین اور افغانستان کے سہ فریقی اتحاد سے کابل کو نمایاں معاشی فوائد حاصل ہوں گے لیکن انڈیا کو مکمل طور پر نظر انداز کرنا بھی ممکن نہیں۔ انڈیا نے افغانستان میں تین ارب ڈالر سے زائد کی سرمایہ کاری کی ہے، خاص طور پر بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور صحت کے شعبوں میں۔

اگرچہ انڈیا نے 2001 میں طالبان کی واپسی کی مخالفت کی لیکن بعد میں وہ افغانستان کا سب سے بڑا علاقائی انسانی امداد و عطیہ دہندہ بن گیا۔

آخر میں یہ تمام جیو پولیٹکل پیش رفت کابل کے حق میں رہی ہے۔ بیجنگ اور اسلام آباد کی طرف سے دی گئی اقتصادی مراعات کے ساتھ سفارتی سطح کو بڑھانے نے افغان حکومت کو عالمی تنہائی کے باوجود علاقائی سطح پر ایک نئی پہچان دی ہے۔

اسلام آباد کے لیے کابل کے ساتھ بہتر تعلقات مغربی سرحدوں پر کشیدگی میں کمی اور سفارتی و معاشی مواقعوں کے نئے دروازے کھولتے ہیں، البتہ یہ تبدیلی نئی دہلی کے لیے خوش آئند نہیں ہو گی، جس نے گذشتہ دو دہائیوں سے کابل سے تعلقات بنانے اور اسلام آباد سے اس کو الگ کرنے پر سرمایہ کاری کی ہے۔

اسلام آباد کو کابل کے ساتھ اپنی دیرینہ سٹریٹجک پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا ہو گی۔ اگر پاکستان افغانستان کو صرف ایک سٹریٹجک بفر زون کے طور پر دیکھتا رہا اور اسے ایک خودمختار ہمسایہ اور سنجیدہ شراکت دار تسلیم نہ کیا تو یہ نیا اتحاد وقتی ثابت ہو سکتا ہے۔

بشکریہ عرب نیوز : نائلہ محسود ایک پاکستانی محقق ہیں، جو علاقائی سیاست اور سکیورٹی کے معاملات پر مہارت رکھتی ہیں۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔
 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر