وفاقی حکومت کی جانب سے نئے مالی سال کے بجٹ میں تعمیراتی شعبے کے لیے مراعات اور مختلف ٹیکسز میں چھوٹ دینے والے اعلان پر ردعمل دیتے ہوئے کنسٹرکشن شعبے سے جڑے کاروباری افراد کے مطابق، انتہائی بدترین حالات سے دوچار تعمیراتی شعبے پر ان اعلانات سے کوئی بڑا اثر نہیں ہو گا۔
منگل کو بجٹ تقریر کے دوران وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے اعلان کیا کہ حکومت جائیداد کی خریداری پر ود ہولڈنگ ٹیکس کی شرح چار فیصد سے کم کر کے ڈھائی فیصد، ساڑھے تین فیصد سے کم کر کے دو فیصد اور تین فیصد سے کم کر کے ڈیڑھ فیصد کرنے کی تجویز دے رہی ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ کے مطابق، گذشتہ سال وفاقی حکومت کی جانب سے کمرشل جائیدادوں، پلاٹس اور گھروں کی مالکانہ حق کی منتقلی پر سات فیصد فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کو ختم کرنے کی بھی تجویز ہے۔ اس کے علاوہ، کم لاگت کے گھروں کی تعمیر کے لیے قرض فراہم کرنے اور اسلام آباد کی حدود میں جائیداد کی خریداری پر سٹامپ پیپر ڈیوٹی چار فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے تعمیرات سیکٹر کے لیے کیے گئے ان اعلانات پر ردعمل دیتے ہوئے، پاکستان میں تعمیرات کے کاروبار سے تعلق رکھنے والے افراد کی سب سے بڑی تنظیم، ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز (آباد) کے سابق چیئرمین حنیف گوہر نے کہا کہ کنسٹرکشن سیکٹر بہت بڑا ہے، اور اس شعبے کے لیے چند ٹیکسز میں کمی سے شعبے پر بڑا فرق نہیں پڑے گا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے حنیف گوہر نے کہا کہ سیمنٹ، لوہے، سٹیل، ٹائلز، ماربل، پینٹ سمیت 72 مختلف شعبہ جات تعمیراتی شعبے سے جڑے ہوئے ہیں، اور ان شعبوں کے باعث ہی تعمیراتی سیکٹر چلتا ہے۔
حنیف گوہر کے مطابق: ’حکومت کی جانب سے تعمیراتی شعبے پر لاگو کچھ ٹیکس کی شرح میں کمی کرنے یا کم لاگت والے گھروں کی تعمیر پر قرضہ دینے کے اعلان سے اس سیکٹر پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔
’جب تک تعمیراتی شعبے کے ساتھ جڑے 72 شعبوں کو ریلیف نہیں ملتا، اگر کچھ ٹیکسز کم بھی ہو جائیں اور تعمیراتی شعبے کو چلانے والے 72 دیگر شعبوں کی اشیا کی قیمتوں میں فرق نہ آئے تو اس سے کیا فرق پڑے گا؟‘
حنیف گوہر نے مزید بتایا کہ خام مال کی قیمتوں میں اضافے، بجلی کی قیمت میں اضافے سمیت مختلف وجوہات پر سٹیل ملز مالکان نے ملز بند کر دی ہیں۔ ایسی صورت میں گھر کی تعمیر کی بنیادی لاگت انتہائی مہنگی ہو گئی ہے۔ بلڈرز اپنی سائٹ پر ملازمین کی ڈاؤن سائزنگ پر مجبور ہیں۔ ایسے میں کچھ ٹیکس کم ہونے سے سیکٹر پر کوئی بڑا فرق نہیں ہوگا۔
حنیف گوہر کے مطابق، گذشتہ چند سالوں سے کنسٹرکشن سیکٹر کی حالت انتہائی ابتر ہے۔ حکومت خود تسلیم کرتی ہے کہ پاکستانی بلڈرز، ڈویلپرز کا ملک سے انخلا ہو رہا ہے۔ حکومت کے مطابق، پاکستانی کاروباری افراد نے صرف دبئی میں 10 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہے۔ اس طرح لوگ ترکی اور دیگر ممالک بھی جا رہے ہیں۔
بقول حنیف گوہر: ’دبئی، ترکی سمیت کنسٹرکشن پر پانچ فیصد سے زائد ٹیکس نہیں اور وہاں یہ بھی نہیں پوچھا جاتا کہ یہ پیسہ کہاں سے آیا؟ چاہے وہ گرے معیشت کا پیسہ ہی کیوں نہ ہو۔
’ہم نے حکومت کو تجویز دی تھی کہ کنسٹرکشن سیکٹر میں گرے معیشت کا پیسہ آنے دیں، چند سالوں میں وہ پیسہ ٹیکس نیٹ میں آ جائے گا۔ مگر بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرائط کے باعث حکومت نے ایسا نہیں کیا۔
’حکومت نے اعلان کیا کہ ایک کروڑ روپے کی لاگت والی جائیداد پر سات فیصد ٹیکس کی چھوٹ ہوگی۔ مگر پہلے تو کسی فرد کے پاس ایک کروڑ ہوں تب وہ سات فیصد بچا سکتا ہے۔ جب تک ہر سیکٹر پر ریلیف نہیں ملتا، کنسٹرکشن پر کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تعمیراتی شعبے سے جڑی مختلف صنعتوں پر بجٹ میں کیے گئے اعلانات کا کیا فرق پڑے گا؟ یہ جاننے کے لیے جب رابطہ کیا تو کراچی کی بھینس کالونی میں واقع ایم بی ماربل اینڈ ٹائلز کمپنی چلانے والے پیر محمد نے کہا کہ حکومت نے جائیدادوں اور ملکیتوں پر مختلف ٹیکسز میں چھوٹ دی ہے، مگر کنسٹرکشن سیکٹر کے لیے کلیدی کردار ادا کرنے والے شعبوں کے لیے کوئی ریلیف نہیں دیا گیا۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے پیر محمد نے کہا: ’کوئی بھی تعمیراتی کمپنی ایک گھر یا کمرشل پراپرٹی اکیلے تعمیر نہیں کر سکتی۔ کنسٹرکشن سے جڑے دیگر شعبے جیسے ماربل اور ٹائلز کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔
’حکومت نے جائیدادوں پر ریلیف کے ٹیکس چھوٹ کا اعلان کیا ہے، مگر ہمارے شعبے کے لیے کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ ہمیں فیکٹری چلانے کے لیے بجلی درکار ہے، جس کی قیمت میں کمی نہیں ہوئی۔
’ٹائلز یا ماربل کو کنسٹرکشن سائٹ تک لے جانے کے لیے گاڑی یا ٹرک میں استعمال ہونے والے پیٹرول یا ڈیزل کی قیمت میں کمی نہیں آئی۔ اس لیے ایک تو ہمارے منافعے کا مارجن دو سے تین فیصد ہو گیا ہے اور اس کے ساتھ آرڈرز بھی نہیں مل رہے۔‘
پیر محمد کے مطابق، مقامی ماربل، ٹائلز فیکٹریز ایکسپورٹ نہیں کرتیں بلکہ مقامی مارکیٹ میں فروخت کرتی ہیں، مگر گذشتہ چند سالوں سے تعمیراتی شعبے پر منفی اثرات کے باعث اس سے جڑے تمام شعبوں پر منفی اثر پڑا ہے۔
بقول پیر محمد: ’جب تک تمام شعبہ جات کو ایک ساتھ ریلیف نہیں دیا جاتا، تب تک کوئی بڑا اثر نہیں ہو گا۔‘