نہیں کا مطلب نہیں ہے!!

محبت میں ایک بھی فریق انکار کر دے یا رشتے سے پیچھے ہٹ جائے تو دوسرے فریق کو بھی ہٹ جانا چاہیے۔

ثنا یوسف کو دو جون کو اسلام آباد کے سیکٹر جی 13 میں ان کے گھر میں گولی مار کر قتل کر دیا گیا تھا (ثنا یوسف انسٹاگرام اکاؤنٹ)

دنیا مرد و عورت کے امتزاج کے ساتھ بنی ہے۔ دونوں ایک دوسرے کے لیے لازم ہیں۔ 

مرد و عورت کا دنیا میں ایک ہی رشتہ نہیں ہوتا بلکہ وہ مختلف رشتوں اور حوالوں سے ایک دوسرے کے ساتھ جڑتے ہیں۔ 

ان میں محبت ایک ایسا رشتہ ہے جو کبھی کبھی تمام رشتوں پر بھاری پڑ جاتا ہے۔ محبت اگر دو طرفہ ہو تو بڑے بڑے طوفانوں کا سامنا کر لیتی ہے۔ 

اکثر ان کی منزل ایک ہونا ہوتا ہے۔ یوں یہ محبت امر ہو جاتی ہے، تو کبھی اس میں جدائی آ جاتی ہے لیکن اصل محبت کبھی ختم نہیں ہوتی۔ 

آج بھی ایسی محبتیں زندہ ہیں۔ لوگ ان کی مثال دیتے ہیں۔ جیسے ہیر رانجھا، سسی پنوں اور سوہنی ماہیوال۔ ایسی بہت سی داستانیں جو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہو گئیں۔ 

پر آج کی محبت شاید ماضی جیسی نہیں رہی۔ آج کی محبت میں ضد، انا، جلد بازی، دھوکہ اور خود سری آ گئی ہے۔ پہلے لوگ ایک دوسرے کا سالوں انتظار کرتے تھے اور اب واٹس ایپ کے رپلائی میں تاخیر پر علیحدگی ہو جاتی ہے۔ 

دنیا بہت بدل گئی ہے اور انسان کے مزاج سے صبر و تحمل ختم ہو گیا ہے۔ محبت دو طرفہ ہو تو اچھی لگتی ہے لیکن ایک طرفہ محبت مسائل اور پریشانیوں کو جنم دیتی ہے۔ اگر کوئی مرد کسی عورت سے اقرار محبت کرے اور وہ منع کر دے تو اس کو عزت سے پیچھے ہٹ جانا چاہیے۔ اسی طرح اگر کسی عورت کو مرد انکار کر دے تو اس کو بھی پیچھےہٹ جانا چاہیے۔ 

خواتین ویسے محبت کا اقرار کم کرتی ہیں لیکن مرد جلد اقرار کر کے اپنے لیے معاملات الجھا لیتے ہیں۔ اب وہ خالص محبتیں بھی نایاب ہیں۔ لوگ وقتی تعلق رکھ کر کسی نئے رشتے کی کھوج میں نکل جاتے ہیں۔ 

رشتہ جس بھی نوعیت کا ہو دوستی ہو، محبت ہو، شادی کی بات چل رہی ہو، اگر لڑکی منع کر دے تو منع ہو جانا چاہیے۔ بس اتنی سی بات معاشرے کو سمجھنا ہو گی۔

انکار کا مطلب یہ نہیں کہ بار، بار کوشش کی جائے کہ اس کا دل بدل جائے اور وہ آپ کی بات مان جائے گی۔ ایسا نہیں ہوتا محبت زبردستی کا سودا نہیں۔ 

اگر آپ کسی کے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑ جائیں گے تو یہ محبت نہیں ہراسانی کے زمرے میں آئے گا۔ ہمیں ہمارے معاشرے میں نہیں کا مطلب نہیں اور consent یعنی باہمی رضا مندی کے حوالے سے آگاہی کو عام کرنا ہو گا۔ 

یعنی محبت میں ایک بھی فریق انکار کر دے یا رشتے سے پیچھے ہٹ جائے تو دوسرے فریق کو بھی ہٹ جانا چاہیے۔ 

اسی طرح رشتہ، شادی بیاہ طے کرتے وقت یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ دوسری طرف سے انکار بھی ہو سکتا ہے تو وقار، سنجیدگی متانت کے ساتھ معاملات کو لے کر چلیں۔

لیکن ہمارا معاشرہ پدرشاہی پر کھڑا ہے۔ یہاں عورت پر ظلم کو رومانوی بنانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مرد جتنا زور زبردستی کرے وہ اتنا زیادہ ماچو لگے گا۔ 

بس اس کی مرضی چلے گی۔ عورت کے پاس نہ کا اختیار نہیں۔ یہ ذہن سازی نوے کی دہائی کی فلموں اور موجودہ ٹی وی ڈراموں سے بھی ہوئی۔ 

مشہور اداکار شاہ رخ خان کی بہت سی فلمیں ایسی ہیں جس میں وہ ایک جنونی عاشق کے طور پر ہیروئن کے پیچھے پڑ جاتے ہیں جس سے اس ہیروئن کی عائلی زندگی کا توازن بگڑ جاتا ہے۔ 

اس کے ساتھ وہ لڑکی خوف ہراسانی کا بھی شکار ہو جاتی ہے۔ تاہم ان کی فلموں میں اس کو محبت کے طور پر پیش کیا گیا، جن میں دیوانہ، انجام، بازی گر اور دیگر شامل ہیں۔

خون سے ہاتھ پر لکھنا، محبوب کے لیے کلائی کاٹ لینا، اس کے پیچھا کرنا، اس کو ڈرانا کہ بس وہ مان جائے تو یہ فلموں کا سکرپٹ نوجوان اصل دنیا میں بھی لے آئے۔ پاکستان میں شادی سے انکار، رشتے سے منع کرنا اور محبت سے انکار بہت معیوب سمجھا جاتا ہے۔ یہاں تک دیکھا گیا ہے کہ ایسی صورت میں لڑکا طیش میں آکر لڑکی کو گولی مار دیتا ہے، تیزاب پھنک دیا جاتا ہے یا اغوا کر کے زبردستی نکاح کر لیا جاتا ہے۔ 

اب پاکستانی ڈراموں میں بھی یہ سکرپٹ پہنچ گئے ہیں۔ ہیرو ہیروئن کو شادی سے انکار کی صورت میں مارنے کی دھمکی دے رہا ہے، اس کو حبس بےجا میں رکھ رہا ہے۔ اس پر پرتشدد رشتہ مسلط کر دیا جاتا ہے۔ ایسے بہت سے ڈرامہ سیریل پیش کیے جا رہے ہیں جس میں ایک جنونی عاشق ایک معصوم لڑکی کی زندگی برباد کر دیتا ہے۔ 

شوبز کی زندگی کو ایک طرف کریں، روزمرہ کی زندگی میں بھی ایسے واقعات بھرے پڑے ہیں۔ 

میں جن دنوں لاہور میں مقیم تھی تو ایک جاننے والوں کی بیٹی کا رشتہ آیا انہوں نے منع کر دیا، بات آئی گئی ہو گئی۔

لڑکے نے اس کو اپنی توہین گردانا اور لڑکی جب کالج سے نکل کر اپنی کار میں بیٹھ رہی تھی تو اس نے مسترد ہونے کی وجہ سےاس پر تیزاب پھینک دیا۔ 

وہ لڑکی خوش قسمت تھی کہ بہت کم تیزاب اس تک آیا اور قریب کھڑے لوگوں نے اس پر بیک وقت پانی ڈال کر اس کو ہسپتال منتقل کیا۔ اس کے زخم تو بھر گئے لیکن دل میں خوف بیٹھ گیا۔ اسی طرح سینکڑوں ایسے واقعات ہیں جن میں خواتین کو اپنی ملکیت یا جائیداد کے طور پر ڈیل کیا جاتا ہے۔ 

خواتین کوئی زمین کا ٹکڑا نہیں، جیتا جاگتا انسان ہیں جن کے پاس جذبات بھی ہیں اور نہ کہنے کے لیے دماغ اور دل بھی۔ ابھی ایک کم سن میڈیا انفلوئنسر ثنا یوسف کا قتل ہوا۔ وہ کوئی گانوں پر ٹک ٹاک نہیں بناتی تھی بلکہ سوشل میڈیا collaboration سے معقول پیسے کما رہی تھی۔ 

ایسے بچوں کو انفلوئنسر اور کانٹینٹ کریٹر کہا جاتا ہے۔ وہ زندہ دل تھی، خوش رہتی تھی، مستقبل کے سہانے خواب دیکھتی تھی۔ 

اس کو ایک شقی القلب لڑکا قتل کر گیا۔ بجائے کہ لوگ ملزم کی مذمت کرتے لوگ معصوم بچی کی کردار کشی پر اتر آئے۔ 

اس کو ٹک ٹاکر کہہ کر اس کی تضیحک کرتے رہے۔ وہ بچی تو مثبت کانٹینٹ بناتی تھی، مختلف تقریبات میں جاتی تھی اور براںڈز کہ تشہیر کرتی تھی۔ 

پولیس کے مطابق ملزم نے اس کو انکار کی وجہ سے قتل کیا۔ وہ اس کو بار بار فون اور میسجز کرتا رہا، ملنے کا کہہ رہا تھا۔

اس کے بار، بار انکار پر اس کو گولی مار کر قتل کر دیا۔ ایک معصوم بچی ایک سفاک لڑکے کی نازک انا کی بھینٹ چڑھ گئی۔

اس کو کبھی یہ بتایا ہی نہیں گیا کہ دوستی اور محبت باہمی رضا مندی سے ہوتی ہے اور نو کا مطلب نو ہوتا ہے۔ 

اس کے علاوہ اس کو خواتین اور لڑکیوں کا احترام کرنا بھی نہیں سیکھایا گیا۔ وہ لڑکا جڑانوالہ سے اسلام آباد پہنچ گیا، اس کے والدین اس کی سرگرمیوں سے واقف ہی نہیں تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سوشل میڈیا پر خواتین کی موجودگی ان کو پبلک پراپرٹی نہیں بناتی۔ ان کی بھی نجی زندگی ہوتی ہے، ان کی بھی ذاتی پسند ناپسند ہوتی ہے۔ ان کو بھی انکار کہنے کا حق حاصل ہے۔ تاہم یہاں ماڈرن، پڑھی لکھی اور خود مختار لڑکی کو ترنوالہ سمجھ کر نگلنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ جو بھی لڑکی گھر سے باہر نکل رہی ہے وہ بدکردار نہیں، وہ اپنے کیریئر، پروفیشنل گروتھ اور اپنے گھر کو چلانے کے لیے نکلتی ہے۔ 

کسی لڑکی کا باہر نکلنا یا سوشل میڈیا پر ہونا دعوت گناہ نہیں۔ باہر کام کرنے والی تمام لڑکیاں عزت دار ہیں اور وہ پبلک پراپرٹی نہیں۔ مرد ان سے فاصلہ رکھیں اور انہیں کام کرنے دیں۔ وہ باہر ان کو لبھانے اور رجھانے کے لیے نہیں نکلیں۔ 

اس کیس میں پولیس نے واضح کیا کہ بار بار مسترد ہونے کے بعد لڑکے نے ثنا کو قتل کیا۔ یہ ایک بہت افسوس ناک سانحہ ہے۔

امید ہے ہماری عدالتیں جلد ثنا کو انصاف دیں گی۔

تمام نوجوانوں سے بس اتنا کہنا ہے کہ اگر کوئی لڑکی منع کر دے، چاہیے وہ دوستی کا رشتہ ہو، محبت کا یا شادی کے لیے بھیجا گیا پیغام، نہ کا مطلب یہ نہیں ہوتا کہ پیچھے پڑ جاؤ اور بار بار کوشش کرو اور دوسرے کو تنگ کرنا شروع کر دو۔ 

نہیں کا مطلب نہیں ہوتا ہے۔ یہ بات ہمارے نوجوانوں کو سمجھنا ہوگی۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مشتمل ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر