عمران خان کی ہدایت کے برخلاف کے پی کا بجٹ پاس کرنے کا فیصلہ کیوں؟

پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے چیئرمین عمران خان کی واضح ہدایات کے باوجود خیبر پختونخوا کا بجٹ اسمبلی سے منظور کروانے کا فیصلہ کیوں کیا؟

علی امین گنڈاپور نے 17 فروری، 2024 کو پشاور میں احتجاج کے دوران عمران خان کی تصویر اٹھا رکھی ہے (اے ایف پی)

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی صوبائی حکومت نے چیئرمین عمران خان کی واضح ہدایات کے باوجود خیبر پختونخوا کا بجٹ اسمبلی سے منظور کروانے کا فیصلہ کیا ہے۔

یہ فیصلہ پارٹی کی سیاسی کمیٹی کے حالیہ اجلاس میں کیا گیا، جس کا مقصد مبینہ طور پر وفاقی حکومت کے ’مذموم عزائم‘ کو ناکام بنانا بتایا گیا۔

بجٹ پیش کرنے سے قبل اڈیالہ جیل میں قید عمران خان نے اپنی جماعت کو ہدایت دی تھی کہ ان کی مشاورت کے بغیر بجٹ نہ پیش کیا جائے اور نہ ہی پاس کیا جائے۔

11 جون کو عمران خان کے ایکس اکاؤنٹ سے جاری ایک طویل ٹویٹ میں کہا گیا کہ ’علی امین کو میں نے ہدایت جاری کر دی ہے کہ میری مشاورت کے بغیر خیبر پختونخوا کا بجٹ پیش نہیں ہو گا۔‘

تاہم اس کے باوجود 13 جون کو صوبائی بجٹ اسمبلی میں پیش کر دیا گیا۔ وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور نے اس موقعے پر وضاحت دی تھی کہ بجٹ تو پیش کیا جا چکا ہے، لیکن اس کی منظوری عمران خان سے مشاورت کے بعد دی جائے گی۔

17 جون کو عمران خان کی جانب سے ایک اور پیغام میں کہا گیا کہ بجٹ کی منظوری اس وقت تک نہیں دی جائے گی جب تک علی امین، عمر ایوب، مزمل اسلم، تیمور جھگڑا اور شبلی فراز انہیں بریفنگ نہ دیں۔

'فنانشل ایمرجنسی' کا خدشہ اور صوبائی اسمبلی کی تحلیل

20 جون کو علی امین گنڈاپور نے ایک ویڈیو بیان میں دعویٰ کیا کہ وفاقی حکومت خیبر پختونخوا میں ’فنانشل ایمرجنسی‘ نافذ کرنے کی سازش کر رہی ہے۔

وہ ویڈیو میں آئین کی شق 235 کا حوالہ دے رہے تھے جس کے مطابق اگر ایسی ایمرجنسی لگائی گئی تو صوبے کے مالی اختیارات وفاق کو منتقل ہو سکتے ہیں، جس میں تنخواہوں میں کمی جیسے اقدامات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔

علی امین نے دعویٰ کیا کہ اس سازش کا آغاز تب ہوا جب گورنر نے بجٹ اجلاس بلانے سے انکار کیا۔ انہوں نے مزید کہا ’اگر وفاقی حکومت سازشیں جاری رکھتی ہے تو میرے پاس صوبائی اسمبلی تحلیل کرنے کا قانونی اختیار موجود ہے۔‘

تمام تر بیانات کے باوجود 22 جون کو پی ٹی آئی کی سیاسی کمیٹی نے بجٹ پاس کرنے کا فیصلہ کیا۔

پارٹی اعلامیے کے مطابق یہ اقدام وفاقی حکومت کے مبینہ منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے کیا گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اعلامیے میں مزید کہا گیا کہ اگر بعد میں چیئرمین عمران خان چاہیں گے تو بجٹ میں ترامیم کی جا سکتی ہیں۔

پی ٹی آئی کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات ملک عدیل اقبال کا کہنا ہے ’عمران خان کی ہدایات کو نظرانداز نہیں کیا گیا، بلکہ یہ آئینی مجبوری تھی۔

سیاسی کمیٹی نے واضح کیا کہ اگر بجٹ پاس نہ ہوا تو اسمبلی تحلیل ہو سکتی ہے اور اگر بعد میں عمران خان سے ملاقات ہوئی تو اسمبلی واپس نہیں آ سکے گی۔‘

صحافی محمود جان بابر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کا بجٹ پاس کرنے کا فیصلہ ’یوٹرن‘ ہے۔ ان کے مطابق پارٹی کو احساس ہے کہ بجٹ منظور نہ کرنے کی صورت میں حکومت خطرے میں پڑ سکتی ہے اور مقدمات کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

تجزیہ کار طارق وحید کے مطابق بجٹ کو عمران خان کی منظوری سے مشروط کرنا ایک سیاسی حربہ تھا، جو دراصل وفاقی حکومت پر دباؤ ڈالنے کی کوشش تھی۔

ان کا کہنا ہے کہ اسمبلی کو 30 جون سے قبل بجٹ منظور کرنا ضروری ہے ورنہ صوبے میں آئینی بحران پیدا ہو سکتا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’علی امین اقتدار چھوڑنے کے لیے تیار نہیں، اور وہ عمران خان کے نقشِ قدم پر چل کر اسمبلی تحلیل کرنے کی پوزیشن میں بھی نہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست