پاکستان میں 75 سے زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں، جن میں سے چند اب معدومیت کے خطرے سے دوچار ہیں جن میں سے ایک ہنزہ میں بولی جانے والی زبان بروشسکی بھی ہے۔
بروشسکی جس کے بولنے والوں کی تعداد 25 ہزار سے بھی کم رہ گئی ہے۔
اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یونیسکو نے اسے معدوم ہونے کے خطرے سے دوچار زبانوں میں بھی شامل کیا ہے۔
ایسے میں ہنزہ کے رہنے والے کرامت علی نے اپنی مادری زبان بروشسکی میں ایک فلم بنائی ہے تاکہ اس کو محفوظ کرنے کے لیے کچھ عملی قدم اٹھایا جا سکے۔
’ہن دن (ایک ماتم کی گونج)‘ نامی فلم کا پریمیئر کراچی میں جاری پاکستان انٹرنیشنل فلم فیسٹیول کے زیر انتظام ہوا، جس میں فلم میں کام کرنے والے اداکاروں، اس کے ہدایت کار اور پروڈیوسر سمیت کراچی میں مقیم ان افراد نے بھی شرکت کی جن کی مادری زبان بروشسکی ہے۔
اس فلم کے بارے میں بتاتے ہوئے اس کے مصنف اور ہدایت کار کرامت علی نے بتایا کہ اس فلم کی کہانی ایک لوک داستان پر مبنی ہے جو شکاری، شکار اور ان کے زمین سے جڑے ہونے پر مبنی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ بروشسکی جنوبی ایشیا کی قدیم زبانوں میں سے ایک ہے اور یہ اس زبان میں بنائی گئی پہلی فلم ہے۔
ہن دن لکڑی اور پتھر کو کہتے ہیں، مگر بروشسکی میں اس کا مطلب فطرت یا نیچر کے لیے بھی استعمال ہوتا ہے، کیونکہ فلم میں ماحولیاتی تبدیلی کے موضوع کو بھی زیر بحث لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ بروشسکی پہلے لکھی نہیں جاتی تھی اور اس کی کہانیاں زبانی منتقل ہوتی تھیں، اس لیے یہ فطرت کے المیے کو اگلی نسل تک پہنچانے کی کہانی ہے۔
یہ کہانی ایک قدیم داستان جو صدیوں پرانی ہے اس پر محیط ہے، اور یہ مکالمی ہے ایک جانور اور اس کے بچے کا جنہیں شکاری شکار کرنے آیا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ فلم 12 ستمبر کو اردو زبان میں بھی ڈب کر کے عوام کے لیے پیش کی جائے گی جب کہ دنیا کے دیگر ممالک میں بھی اس کی نمائش کا ارادہ ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس فلم میں مرکزی کردار ادا کرنے والے الحان القدرت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ فلم ایک اہم ترین پیغام دیتی ہے کہ ’ہمیں جنگلی حیات اور فطرت کے ساتھ ہی اس دنیا میں رہنا ہے، ان کو نقصان نہیں پہنچانا ہے، ورنہ اس کا اثر ہماری زندگیوں پر بھی پڑے گا۔‘
فلم کی اداکارہ منیرہ شاہ کا کہنا تھا کہ علاقائی زبان میں فلم بنانا وہ بھی موسمیاتی تبدیلی کے موضوع پر کافی اہم ہے اس لیے عوام کو اسے دیکھنے آنا چاہیے۔
فلم کے دوسرے اداکار زاہد کریم نے اس فلم میں چرواہے کا کردار کیا ہے، ان کا کہنا تھا کہ پہلی مرتبہ بروشسکی میں فلم کا بننا قابل تحسین ہے جس میں جنگلی حیات کے تحفظ اور ماحولیات کے بارے میں آگاہی فراہم کی گئی ہے۔
اس فلم کی پروڈیوسر نیلوفر کرامت نے کہا کہ اس فلم کا مقصد یہ ہے کہ آنے والی نسل تک لوک داستان کو پہنچایا جائے جس سے زبان کو فروغ مل سکے۔
اس موقع پر معروف گلاکارہ نتاشا بیگ بھی موجود تھیں جن کی مادری زبان بروشسکی ہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مادری زبان میں فلم ہونے کی وجہ سے یہ ان کے دل کے بہت قریب ہے، اور مادری زبان میں فلم دیکھنا ایک دلچسپ تجربہ تھا۔
اعصام اللہ بیگ کی مادری زبان بھی بروشسکی ہی ہے اور وہ پہلی بار اس زبان میں فلم دیکھ کے کافی محظوظ ہوئے۔
ایمان کی مادری زبان بھی بروشسکی ہے اور وہ پہلے اس پر بروشسکی میں اور پھر اردو میں بتایا کہ ان کی مادری زبان میں فلم بناکر ان کے گاؤں اور ان کی ثقافت کو فروغ دینے کی کوشش انہیں بہت اچھی لگی جو ان کے لیے باعثِ مسرت ہے۔
اسی طرح عاہل کریم، جن کا تعلق ہنزہ ہے سے اور ان کی مادری زبان بھی بروشسکی ہے وہ اپنی مادری زبان میں اپنی تاریخی داستان کو دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔
اس تقریب میں شامل دیگر افراد نے بھی علاقائی زبانوں اور داستان کے فروغ کے لیے کی جانے والی اس کاوش کو سراہا اور امید کی کہ یہ سلسلہ جاری رہے گا۔