سیٹلائٹ تصاویر سے ٹرمپ کا ایرانی تنصیبات کی مکمل تباہی کا دعویٰ مشکوک

تصاویر میں زمین پر ہونے والا نقصان دکھائی دیتا ہے جن میں نئے گڑھے، پہاڑی چوٹیوں پر سوراخ اور منہدم سرنگیں شامل ہیں تاہم اس بات کا قطعی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا کہ زیرزمین مضبوط قلعہ بند تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔

امریکی حملے کے بعد اصفہان نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور تحقیقاتی مرکز کو پہنچنے والے نقصان کی سیٹلائٹ تصویر
(میکسار ٹیکنالوجیز)

امریکی فوج کی جانب سے ایران کی جوہری تنصیبات کو تباہ کرنے کی کوشش کے بعد لی گئی سیٹلائٹ تصاویر تہران کی جوہری تنصیبات کو نمایاں نقصان دکھاتی ہیں لیکن وہ نقصان اس حد تک نہیں ہے جتنا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا تھا۔

تصاویر میں زمین پر ہونے والا نقصان دکھائی دیتا ہے جن میں نئے گڑھے، پہاڑی چوٹیوں پر سوراخ اور منہدم سرنگیں شامل ہیں تاہم اس بات کا قطعی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا کہ زیرزمین مضبوط قلعہ بند تنصیبات تباہ ہو چکی ہیں۔

امریکی صدر نے دعویٰ کیا تھا کہ جوہری تنصیبات ’مکمل طور پر اور مکمل طریقے سے تباہ کر دی گئی ہیں۔‘

انہوں نے کہا: ’سب سے بڑا نقصان زمین کے نیچے گہرائی میں ہوا۔ عین درمیان میں نشانہ۔‘

امریکی فوج نے اتوار کی علی الصبح ’آپریشن مڈ نائٹ ہیمر‘ کے تحت فردو، نطنز اور اصفہان میں جوہری تنصیبات پر حملہ کیا۔

رپورٹس کے مطابق اس حملے میں درجنوں طیاروں اور آبدوزوں نے حصہ لیا جنہوں نے تینوں اہداف پر ’بنکر بسٹر‘ بم اور کروز میزائل داغے۔

میکسار ٹیکنالوجیز کی جانب سے جاری کی گئی سیٹلائٹ تصاویر میں فردو کے زیرِ زمین کمپلیکس کے اوپر کئی گڑھے اور نئے سوراخ دکھائی دے رہے ہیں جبکہ سرنگوں کے داخلی راستے مٹی سے بند ہیں تاہم حملے میں سائٹ پر موجود ایک بڑی معاون عمارت متاثر نہیں ہوئی، جیسا کہ تصاویر میں ظاہر ہے۔

بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (اے آئی ای اے) کے سربراہ رافیل گروسی نے کہا کہ ’کوئی بھی فردو میں زیرِ زمین نقصان کا درست اندازہ لگانے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’جہاں تک زیرِ زمین نقصان کی شدت کا تعلق ہے ہم اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے۔ یہ نقصان اہم ہو سکتا ہے، قابل ذکر ہو سکتا ہے لیکن نہ ہم اور نہ ہی کوئی اور اس بات کا یقین سے اندازہ لگا سکتا ہے کہ کتنا نقصان ہوا ہے۔‘

ایجنسی نے یہ بھی کہا کہ اس تنصیب سے کوئی تابکاری بھی خارج نہیں ہوئی۔

امریکی جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین جنرل ڈین کین نے بھی کہا کہ نقصان کی مکمل جانچ ابھی باقی ہے۔

ان کے بقول: ’یہ کہنا ابھی بہت قبل از وقت ہوگا کہ اب وہاں کیا موجود ہے اور کیا نہیں۔‘

نطنز کے مرکزی کمپلیکس کے بعد فردو ایران کی دوسری بڑی یورینیم افزودگی کی تنصیب ہے جو زمین کے نیچے گہرائی میں واقع اور انتہائی مضبوطی سے بنائی گئی جہاں اندازاً 2,700 سینٹری فیوجز موجود تھے۔

نطنز کی سیٹلائٹ تصویر میں تقریباً 5.5 میٹر قطر کا نیا گڑھا دکھائی دیا۔ اگرچہ یہ گڑھا واضح طور پر دھول میں گھرا نظر آ رہا ہے لیکن میکسار ٹیکنالوجیز نے ایک بیان میں کہا کہ تصاویر اس بات کا حتمی ثبوت فراہم نہیں کرتیں کہ امریکی حملہ زمین سے 40 میٹر نیچے موجود زیر زمین ڈھانچے میں داخل ہوا جسے آٹھ میٹر موٹی کنکریٹ اور سٹیل کی تہہ سے تحفظ دیا گیا ہے۔

اقوام متحدہ کے جوہری نگران ادارے نے کہا کہ اصفہان میں نیوکلیئر ٹیکنالوجی اور تحقیقاتی مرکز پر حملے نے ممکنہ طور پر ان ڈھانچوں کو نشانہ بنایا جو یورینیم کی افزودگی سے متعلق تھے اور ان سرنگوں کے داخلی راستے بھی متاثر ہوئے جہاں افزودہ مواد ذخیرہ کیا جاتا ہے۔

یہ تنصیب اس سے پہلے اسرائیلی بمباری کا بھی نشانہ بن چکی ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ امریکہ کے حملے سے پہلے ایران نے اپنی جوہری تنصیبات میں موجود سرنگوں کو مٹی سے بھر دیا تھا، جس سے اس حملے کا اثر محدود ہو گیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انسٹیٹیوٹ فار سائنس اینڈ انٹرنیشنل سکیورٹی کے تجزیے کے مطابق اصفہان کی سائٹ پر سرنگیں حملے سے قبل ممکنہ طور پر مٹی سے بھر دی گئی تھیں۔

ایئربس کی جانب سے لی گئی تصاویر، جن کا جائزہ واشنگٹن میں قائم غیر سرکاری ادارے نے لیا، میں دکھایا گیا کہ جمعے کے دن ٹرک سرنگوں میں مٹی ڈال رہے تھے۔

بیان میں کہا گیا: ’چار میں سے کم از کم تین سرنگوں کے داخلی راستے منہدم ہو چکے ہیں جب کہ چوتھے راستے کی صورت حال واضح نہیں۔‘

کئی ماہرین نے خبردار کیا کہ ایران نے ممکنہ طور پر فردو سے ہتھیاروں کے درجے کے قریب 60 فیصد افزودہ یورینیم کا ذخیرہ حملے سے پہلے ہی کسی نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا تھا جو شاید اسرائیل، امریکہ اور اقوام متحدہ کے جوہری معائنہ کاروں کی پہنچ سے باہر ہو۔

روئٹرز سے بات کرتے ہوئے ایک سینیئر ایرانی ذرائع نے بتایا کہ 60 فیصد افزودہ یورینیم کا زیادہ تر ذخیرہ حملے سے قبل ایک نامعلوم مقام پر منتقل کر دیا گیا تھا۔

مونٹیری کے مڈل بیری انسٹی ٹیوٹ آف انٹرنیشنل سٹڈیز سے وابستہ جیفری لیوس نے کہا: ’میرے خیال میں اعتماد سے کچھ کہنا ممکن نہیں، سوائے اس کے کہ ان کا جوہری پروگرام شاید چند سال پیچھے چلا جائے۔‘

ان کے بقول: ’ایران کے پاس یقینی طور پر کچھ ایسی تنصیبات موجود ہیں جن کے بارے میں ہمیں علم ہی نہیں۔‘

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا