افغان امریکی گمشدہ بزنس مین محمود شاہ کی اطلاع پر ڈیڑھ ارب روپے کا انعام

محمود شاہ کے بھائی احمد شاہ حبیبی نے روزنامہ دی ہل میں ایک مضمون میں لکھا کہ ’طالبان سمجھتے ہیں کہ میرے بھائی اور ان کی کمپنی کا ایمن الظواہری کے قتل کے ساتھ کوئی تعلق ہے لیکن میں یقین سے کہتا ہوں کہ ان کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

امریکی محکمہ انصاف کے ایک بیان میں کہا گیا کہ محمود شاہ اگست 2022 میں اپنے ڈرائیور سمیت کابل سے ’اغوا‘ ہوئے تھے (محمود شاہ حبیبی/ فیس بک)

امریکہ کے محکمہ انصاف نے افغانستان میں 2022 میں مبینہ طور پر اغوا ہونے والے افغان نژاد امریکی بزنس مین محمود شاہ حبیبی کے حوالے سے معلومات فراہم کرنے پر تقریباً ڈیڑھ ارب روپے کے انعام کا اعلان کیا ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کے ایک بیان میں کہا گیا کہ محمود شاہ اگست 2022 میں اپنے ڈرائیور سمیت کابل سے ’اغوا‘ ہوئے تھے، بعدازاں انہیں افغانستان کے محکمہ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ نے حراست میں لے لیا۔

افغان طالبان نے محمود شاہ کے اغوا یا حراست میں لیے جانے کی تصدیق نہیں کی ہے۔

امریکی محکمہ انصاف کے مطابق ’اغوا‘ کے وقت محمود شاہ کابل میں ایک غیر سرکاری ٹیلی کام کمپنی سے منسلک تھے لیکن طالبان نے اب تک ان کے حوالے سے کوئی معلومات فراہم نہیں کی ہیں۔

محکمہ انصاف نے ایک نمبر شیئر کرتے ہوئے بیان میں کہا کہ ’اگر کسی کے پاس محمود شاہ سے متعلق معلومات ہوں تو ٹیلی گرام، سگنل یا وٹس ایپ  پر رابطہ کریں اور اس کام کا انہیں انعام دیا جائے گا۔‘

امریکہ کے فیڈرل بیورو آف انویسٹی گیشن نے اگست 2024 میں محمود شاہ کے حوالے سے ایک بیان میں کہا تھا: ’محمود شاہ کو ان کی کمپنی کے 29 دیگر ملازمین کے ساتھ اغوا کیا گیا تھا لیکن باقی کو بعد میں چھوڑ دیا گیا۔‘

محمود شاہ حبیبی کون ہیں؟

محمود شاہ حبیبی کا تعلق افغانستان کے صوبہ قندھار سے ہے اور پیشے کے لحاظ سے وہ ایوی ایشن کے ماہر ہیں۔ انہوں نے امریکہ کی ایمبری ریڈل ایرو ناٹیکل یونیورسٹی سے ایوی ایشن مینجمنٹ میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی۔ 

افغان طالبان سے پہلے کابل انٹرنیشنل ایئرپورٹ کے فیس بک پر ان کی افغانستان کے ڈپٹی ڈائریکٹر ایوی ایشن بننے کے بعد شیئر کی گئی بائیو گرافی کے مطابق محمود شاہ 2013 میں افغانستان کے نئے بننے والے محکمہ ایوی ایشن کے ڈپٹی ڈائریکٹر تھے۔

اس وقت محمود شاہ افغانستان کے ایوی ایشن معاملات جیسے ایئر ٹریفک کنٹرول، کمیونیکیشن اور نیوی گیشن نظام کے ذمہ دار تھے جبکہ 2017 میں وزیر کے برابر عہدے پر ایوی ایشن کے سربراہ مقرر کیے گئے۔

محمود شاہ حبیبی پہلے افغان شہری تھے جنہیں انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن کی جانب سے ’انٹرنیشنل ایئرپورٹ پروفیشنل‘ کا ٹائٹل دیا گیا، جب کہ انہوں نے کینیڈا، متحدہ عرب امارات، فرانس اور اردن سے بھی ایوی ایشن میں ٹریننگ حاصل کر رکھی ہے۔ 

محمود شاہ حبیبی کے بڑے بھائی احمد شاہ حبیبی نے روزنامہ ’دی ہل‘ میں گذشتہ سال ایک مضمون میں لکھا کہ ان کے بھائی ایک امریکی کمپنی کے ساتھ ملازمت کرتے تھے۔ 

محمود شاہ حبیبی کا اغوا اور ایمن الظواہری

مضمون میں محمود شاہ کے بھائی احمد شاہ حبیبی نے لکھا کہ ’افغان طالبان کی افغانستان پر حکومت قائم ہونے کے بعد ماہر افراد کو افغانستان واپس آنے کی درخواست کی گئی، میرے بھائی کابل اور امریکہ آیا جایا کرتے تھے۔‘

تاہم ان کے مطابق محمود شاہ آخری بار افغانستان میں ایمن الظواہری (القاعدہ کے رہنما) کے کابل میں ڈرون حملے میں مارے جانے کے چند دن بعد وہاں گئے تھے۔

انہوں نے لکھا: ’گذشتہ دو سالوں میں ہمیں یہ معلوم ہوا ہے کہ طالبان سمجھتے ہیں کہ میرے بھائی اور ان کی کمپنی کا ایمن الظواہری کے قتل کے ساتھ کوئی تعلق ہے لیکن میں یقین سے کہتا ہوں کہ میرے بھائی کا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔‘

ان کے بھائی کے مطابق دو سالوں سے محمود شاہ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہیں اور نہ ہی ان کا امریکہ کے شہر نیو جرسی میں بزرگ والدین، اہلیہ اور بیٹی کے ساتھ کوئی رابطہ ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بھائی کے مطابق: ’طالبان نے امریکی سفارت کاروں کو بتایا ہے کہ محمود شاہ ہمارے پاس نہیں ہیں لیکن ہم سمجھتے ہیں کہ اس پر دوبارہ غور کیا جائے کیونکہ یہ عجیب بات ہے کہ ان کو کمپنی کے دیگر ملازمین کے ساتھ اغوا کیا گیا اور باقی کو چھوڑا گیا اور ان کا ابھی تک پتہ نہیں ہے۔’

امریکہ کے پبلک براڈ کاسٹنگ سروس (پی بی ایس) کے محمود شاہ کے خاندان کے ساتھ انٹرویو کی ایک تحریری رپورٹ میں لکھا گیا ہے کہ محمود شاہ امریکہ کے افغانستان میں داخل ہونے کے بعد امریکہ کے فیڈرل ایوی ایشن ایڈمنسٹیریشن ادارے میں 2011 سے 2013 تک کام کر رہے تھے۔ 

اس کے بعد وہ افغانستان کے سول ایوی ایشن کے سربراہ بن گئے اور امریکی حکومت میں کام کی بدولت ان کو 2014 میں گرین کارڈ جاری کیا گیا اور افغانستان میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہونے کے ایک ہفتے بعد انہیں امریکی شہریت مل گئی۔ 

اس دوران پی بی ایس کے مطابق وہ امریکہ کی اے آر ایکس کمیونی کیشن نامی کمپنی کے ساتھ کام کر رہے تھے، جو افغانستان کے ایئرپورٹس کے انفراسٹرکچر کی ذمہ دار تھی۔

اسی انٹرویو میں محمود شاہ کے بھائی احمد شاہ حبیبی نے بتایا کہ محمود شاہ کو طالبان حکومت آنے کے بعد کابل جانے سے منع کیا گیا تھا لیکن وہ کہتے تھے کہ ’میں کوئی سیاسی بندہ نہیں ہوں اور اگر میں نہیں جاؤں گا تو کابل کون بنائے گا۔‘

انہوں نے بتایا: ’کابل سے اغوا کے دوران میری بہن گھر میں موجود تھی، طالبان گھر کے اندر گئے اور وہاں سے لیپ ٹاپ اور کچھ دستاویزات لے کر چلے گئے لیکن طالبان کی جانب سے ابھی تک اس کی کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔‘

محمود شاہ کے حوالے سے گذشتہ سال کچھ ایسی رپورٹس بھی سامنے آئی تھیں کہ ان کو القاعدہ کے حوالے کر دیا گیا ہے، تاہم ان کے بھائی سمجھتے ہیں کہ یہ رپورٹس درست نہیں ہیں۔

گذشتہ سال ستمبر میں دی انڈپینڈنٹ اردو کو دیے گئے ایک انٹرویو میں محمود شاہ کے بھائی احمد شاہ نے بتایا تھا کہ ان کی معلومات کے مطابق محمود شاہ کو القاعدہ کے حوالے نہیں کیا گیا، بلکہ وہ طالبان کے پاس ہیں۔

انہوں نے بتایا تھا: ’امریکی حکومت اس بات کی تصدیق کرے کہ واقعی میرے بھائی کو القاعدہ کے حوالے کیا گیا ہے کیونکہ ماضی میں ہم نے ایسا نہیں دیکھا کہ طالبان نے کسی قیدی کو القاعدہ کے حوالے کیا ہو اور مجھے امید ہے کہ یہ صرف افواہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا