کراچی: اخباری صنعت کے عروج و زوال کے شاہد اخبار فروش

کراچی میں گذشتہ 63 سالوں سے اخبار کا سٹال چلانے والے محمد رفیق کا کہنا ہے کہ شہر کے مصروف علاقوں میں کل 170 سٹال تھے، لیکن اب ’چراغ لے کر‘ ڈھونڈنے سے بھی اخبار کا سٹال نہیں ملتا۔

کراچی میں گذشتہ 63 سالوں سے اخبار کا سٹال چلانے والے محمد رفیق کا کہنا ہے کہ شہر کے مصروف علاقوں میں کل 170 سٹال تھے، لیکن اب ’چراغ لے کر‘ ڈھونڈنے سے بھی اخبار کا سٹال نہیں ملتا۔

محمد رفیق عرف شیر خان کراچی کے شاہین کامپلیکس کے سامنے آئی آئی چندریگر روڈ پر واقع ایرانی کیفے خیرآباد سے متصل چھوٹے کیبن میں اخبار کا سٹال چلاتے ہیں۔

ان کے مطابق یہ سٹال ماضی میں ٹاور، ایم اے جناح روڈ روڈ (سابق بندر روڈ)، برنس روڈ اور صدر کے علاقوں میں ہوا کرتے تھے، جو اب کم ہو کر ایک درجن سے بھی کم رہ گئے ہیں۔

وہ اس کی وجہ نٹرنیٹ کے عام ہونے اور ہر شخص کے پاس سمارٹ فون کی موجودگی بتاتے ہیں۔ اسی طرح اخبارات کے ڈیجیٹل ایڈیشن کی وجہ سے بھی چھپے ہوئے اخبار کی مانگ ختم ہو گئی ہے۔

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ اخباری مالکان کی جانب سے اخبارات کی فروخت میں دلچسپی نہ لینے اور ہاکروں کو کم منافع ملنے بعد اتنی بڑی تعداد میں واقع اخباری سٹال آہستہ آہستہ بند ہوگئے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

بقول محمد رفیق: ’اب تو چراغ لے کر اخبار کا سٹال تلاش کریں تو بھی نہیں ملتا۔‘

70 سالہ محمد رفیق بتاتے ہیں کہ یہ سٹال ان کے والد کا تھا، وہ سات سال کی عمر میں یہاں آنا شروع ہوئے اور آج 63 سال گزرنے کے باوجود وہ یہ سٹال چلا رہے ہیں، تاہم آمدنی نہ ہونے کے برابر ہے۔

بقول محمد رفیق: ’اس کاروبار میں اب کوئی آمدنی نہیں ہوتی مگر اتنے سالوں سے سٹال پر بیٹھنے کے باعث عادت سی ہوگئی ہے۔ اگر ایک دن سٹال پر نہ آؤں تو عجیب لگتا ہے۔‘

انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں محمد رفیق نے بتایا: ’کوئی دور تھا کہ لوگ اخبار لینے کے لیے بڑی تعداد میں صبح ہی جمع ہوجاتے تھے۔ ہم جیسے ہی اخبار لے کر آتے لوگ رضاکارانہ طور پر قطار بنا کر کھڑے ہوجاتے۔میں اس وقت اعلان کرتا کہ جس جس کے پاس کھلے پیسے یا چینج ہے وہ آگے آجائیں اور جن کے پاس چینج نہیں ہے، وہ جا کر پیسے کھلے کروا کے لائیں۔‘

سب سے زیادہ اخبار فروخت ہونے کے ’سنہری دن‘ کو یاد کرتے ہوئے محمد رفیق نے کہا کہ ’جس رات ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی ہوئی، اس کے دوسرے دن جب اخبار آیا تو لوگوں کی بھیڑ لگ گئی۔ اس وقت ہمارا سٹال چار فٹ چوڑا اور چھ فٹ لمبا ہوتا تھا۔ اس کے اندر کھڑے ہوکر اخبار بیچنا شروع کیا۔ اخبار کی فروخت سے ملنے والے نوٹ میں سٹال کے اندر پھینکتا گیا اور نوٹوں کا ڈھیر میرے سینے تک آگیا۔‘

سابق فوجی حکمران جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت سے قبل پاکستان میں اخبارات انتہائی مقبول تھے، انگریزی، اردو اور دیگر زبانوں میں کئی اخبارات کا اجرا ہوا تھا۔

اس وقت پاکستان میں سرکاری اور نجی اشتہارات کا بڑا حصہ اخبارات کو ملتا تھا اور اخباری صنعت اپنے عروج پر تھی۔

اس دور میں جب سیٹلائٹ چینلز کے لائسنس جاری ہوئے تو بڑی تعداد میں نجی ٹی وی چینلز کا آغاز ہوا، جن پر کسی بھی واقعے کی براہ راست کوریج ہونے لگی جب کہ اخبار میں وہی خبر اگلے دن صبح پڑھنے کو ملتی تھی۔

اخباری صنعت کے زوال کے ساتھ شہر بھر میں پھیلے ہوئے اخباری سٹالز کی اکثریت بند ہوگئی لیکن بچ جانے والے چند سٹالوں میں محمد رفیق کی دکان بھی ایک ہے۔

محمد رفیق نے پیش گوئی کی کہ ’چند سالوں بعد لوگ نئی نسل کو بتائیں گے اخباری سٹال بھی ہوتے تھے، جہاں وہ چل کر جاتے تھے اور ہر صبح اخبار خریدتے تھے۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی میری کہانی