سری نگر: ’اخبارات کے ڈھیر ہیں، لیکن پڑھنے والا کوئی نہیں‘

انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اخبار بیچنا کبھی ایک اعلیٰ پیشہ سمجھا جاتا تھا اور لوگ اخبار حاصل کرنے کے لیے اپنے گھروں میں بے صبری سے انتظار کرتے تھے، لیکن اب اخبار فروشوں کے لیے حالات مشکل ہیں۔

 انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں اخبار بیچنا کبھی ایک اعلیٰ پیشہ سمجھا جاتا تھا اور لوگ اخبار حاصل کرنے کے لیے اپنے گھروں میں بے صبری سے انتظار کرتے تھے۔

خصوصاً 1989 میں جب یہاں انڈین حکمرانی کے خلاف مسلح جدوجہد شروع ہوئی تو اخبارات کی مانگ میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اس وقت اس وادی میں 200 کے قریب اخباری تاجر پائے جاتے تھے اور تازہ ترین خبروں کے ساتھ ساتھ اخبارات کی بھی بہت مانگ تھی۔

لیکن انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی آمد سے یہ پیشہ ہر گزرتے دن کے ساتھ اپنی ساکھ کھو رہا ہے اور پچھلے کچھ برس سے یہاں اخبار کے قارئین کی تعداد میں زبردست کمی واقع ہوئی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ہر صبح سورج طلوع ہوتے ہی انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں کئی اخبار فروش مختلف مقامات سے نکلتے ہوئے گرمائی دارالحکومت سری نگر کی پریس کالونی میں نمودار ہوتے ہیں اور وہاں سے اخبارات لے کر مختلف علاقوں تک پہنچاتے ہیں۔ سوشل میڈیا اور ای پیپرز کی موجودگی کے درمیان، ان اخبار فروشوں کو کشمیر میں آخری ہاکر سمجھا جاتا ہے۔

ان اخبار فروشوں کو انڈین فورسز کے ہاتھوں احتجاج، تصادم اور دیگر روزمرہ کی خبروں کے بارے میں معلومات رکھنے والے اخبار لے جانے پر بری طرح تشدد کا نشانہ بھی بنایا جاتا رہا ہے اور ان کی سائیکلوں کو بھی نقصان پہنچایا جاتا تھا۔

عبدالحمید شیخ بھی گذشتہ 30 برس سے اس پیشے سے وابستہ ہیں۔ سوشل میڈیا کے وجود میں آنے کے ساتھ ہی کشمیر میں بہت سے اخبار فروشوں نے اس پیشے کو ترک کردیا، تاہم حمید اب بھی اپنے خاندان کا پیٹ پالنے کے لیے کئی جگہوں پر اخبار بیچ کر روزی روٹی کماتے ہیں۔

اس پیشے سے وابستہ افراد کا دعویٰ ہے کہ ان کے لیے روزی روٹی کمانا مشکل ہو گیا ہے اور اندیشہ ہے کہ ان کے بدترین حالات آنے والے ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا